تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تہران اور واشنگٹن کے درمیان ایران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے ہفتے کے روز عمان میں اعلیٰ سطحی مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ ایرانی وفد کی قیادت نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کر رہے ہیں جبکہ امریکی وفد کی نمائندگی صدر ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو عسکری کارروائی خارج از امکان نہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان عمانی وزیر خارجہ کی ثالثی میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کی تاریخ طویل اور پیچیدہ ہے۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے اور 52 امریکیوں کو 444 دن تک یرغمال رکھنے کے واقعے نے ان تعلقات میں ایک گہری دراڑ ڈال دی۔ اس کے بعد سے ایران پر اقتصادی پابندیاں، حزب اللہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی، اور جوہری سرگرمیوں پر بین الاقوامی تشویش نے اس تعلق کو مزید الجھا دیا۔
2015 میں باراک اوباما کی قیادت میں طے پانے والا جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) اس بحران میں ایک بڑی پیش رفت سمجھا گیا، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر آمادگی ظاہر کی، اور اس کے بدلے میں عالمی پابندیوں میں نرمی کی گئی۔ تاہم، 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے اس معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اور اس کے بعد ایران کی جانب سے تدریجاً اس کی شرائط سے انحراف نے ایک بار پھر خطے کو کشیدگی کی طرف دھکیل دیا۔
حالیہ صورتحال میں ایران کا جوہری پروگرام ایک بار پھر عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ایران نے 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر لیا ہے، جو ہتھیار سازی کے دہانے تک پہنچنے کے مترادف ہے۔ ایسے میں ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی بھی بامعنی بات چیت عالمی سفارت کاری کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے—خصوصاً اس وقت جب دونوں ممالک اندرونی سیاسی، سماجی اور معاشی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان مذاکرات کے تناظر میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ خطے کی دیگر طاقتیں، خاص طور پر سعودی عرب، انہیں کس نظر سے دیکھ رہی ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے باضابطہ طور پر ان مذاکرات پر کوئی تازہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا، تاہم عمومی طور پر سعودی مؤقف ماضی میں محتاط حمایت پر مبنی رہا ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاض خطے میں کشیدگی کے خاتمے اور استحکام کی خواہش کے تناظر میں ان مذاکرات کو ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ سعودی عرب حالیہ برسوں میں یمن جنگ، تیل کی تنصیبات پر حملوں اور ایران کے ساتھ شدید سفارتی کشیدگی جیسے تجربات سے گزرا ہے، جنہوں نے اسے ایک محتاط لیکن فعال خارجہ پالیسی کی جانب مائل کیا۔
تاہم، سعودی عرب کی یہ ممکنہ حمایت مکمل طور پر غیر مشروط نہیں ہو سکتی۔ ایران کے جوہری عزائم پر ریاض کی تشویش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب پہنچتا ہے، تو یہ سعودی دفاعی حکمتِ عملی کے لیے ایک نیا سوالیہ نشان کھڑا کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ریاض کسی بھی معاہدے کو اس شرط سے مشروط دیکھنا چاہے کہ ایران کا جوہری پروگرام نہ صرف محدود ہو بلکہ شفاف اور بین الاقوامی نگرانی میں رہے۔
اسی طرح، ایران کے علاقائی کردار—بالخصوص یمن، شام، عراق اور لبنان میں اس کی سرگرمیوں پر بھی سعودی عرب کے تحفظات موجود رہے ہیں۔ اگر جوہری معاہدہ ایران کو خطے میں مزید جارحانہ طرز عمل اپنانے کا راستہ فراہم کرتا ہے، تو یہ امن کی بجائے نئے تناؤ کو جنم دے سکتا ہے۔
مارچ 2023 میں چین کی ثالثی سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی ایک خوش آئند پیش رفت تھی، جس نے دونوں ممالک کے بیانیے میں قدرے نرمی پیدا کی ہے۔ بظاہر سعودی خارجہ پالیسی میں اب صرف مزاحمت نہیں بلکہ مشروط تعاون اور تزویراتی توازن پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ مذاکرات محض دو ریاستوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا باب نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی وسیع تر سیاست کے لیے ایک نئی سمت متعین کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب، شاید اسی تناظر میں، ان مذاکرات کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہا ہو—لیکن ایک ایسی امید کے ساتھ جو محتاط ہے، اور جو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کر چکی ہے۔