جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے زاہدہ پروین بنام حکومتِ خیبر پختونخواہ (CPLA No. 566-P/2024) کا ایک جائزہ
زاہدہ پروین کیس کے فیصلے میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے جس نظریاتی سمت کو اختیار کیا ہے اس سے پاکستان میں خواتین سے متعلق قوانین کی تشریح و اطلاق کے بارے میں بہت سے سنجیدہ سوالات نے سر اٹھایا ہے۔ اس ابھرتی ہوئی عدالتی سوچ اور فکر میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدات اور مغربی لبرل فیمنسٹ نظریات کو عدالتی فیصلوں اور قانونی تعبیرات و تشریحات میں ایک کلیدی کردار سونپا گیا ہے۔ اگرچہ خواتین کے خلاف ظلم اور جبر پر مبنی امتیازی سلوک کے خاتمے کی کوششیں قابلِ تحسین ہیں، تاہم مذکورہ فیصلے میں اختیار کردہ طریقِ کار پاکستان کے آئینی ڈھانچے، عدالتی دائرہ اختیار کی حدود اور قوانین کی اسلامی تشریحات کے تناظر میں سنجیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 227 کے تحت یہ واضح طور پر طے کیا گیا ہے کہ تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ اس ہدایت کی مزید توثیق نفاذِ شریعت ایکٹ 1991ء میں کی گئی ہے، جس کے تحت عدالتوں پر لازم ہے کہ وہ قوانین کی تعبیر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کریں۔ اس بات کو اب عدالتی فیصلوں کے ذریعے بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ جب کسی قانون کی ایک سے زائد تشریحات ممکن ہوں تو جج صاحبان کو مشرق و مغرب کے قانونی فلسفوں کے بجائے وہ تشریح اختیار کرنی چاہیئے جو قرآن و سنت کے موافق ہو۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیر نظر عدالتی فیصلہ ان آئینی و قانونی تقاضوں کو بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ خاندانی نظام، مالیاتی انحصار، اور ازدواجی حیثیت جیسے وہ تمام پہلو جو شرعی تعلیمات کا اہم حصہ ہیں، اُن پر نہ تو سنجیدگی سے غور کیا گیا اور نہ ہی کسی فقہی اصول کو اس فیصلے میں استدلال کا حصہ بنایا گیا۔ اس کے برعکس، فیصلہ مکمل طور پر مغربی فیمنسٹ فکر پر مبنی ہے۔ ایک ایسی ریاست کے لیے جو خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتی ہے، یہ رویہ آئینی و نظریاتی تقاضوں سے انحراف کے مترادف ہے۔
جسٹس منصور صاحب کے فیصلے میں متعدد تصورات جیسے "coverture”، "other” اور "financial & economic independence” کو مغربی مصنفین مارتھا فائن مین، سائمن ڈی بوا اور بیل ہوکس جیسے فیمنسٹ مفکرین سے مستعار لیا گیا ہے اور انہیں پاکستانی قوانین کی تفہیم کے لئے ایک فریم ورک کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
یہاں مسئلہ صرف ان افکار کے ذکر کرنے کا نہیں، بلکہ ان کی کسی تنقیدی جانچ کے بغیر عدالتی نظیر کے ذریعے ایسی پیوند کاری کا ہے جسے اسلامی قوانین اور ہمارے ثقافتی تناظر کے فلٹر سے گزارے بغیر اختیار کر لیا گیا ہے۔ ان نظریات کو، جو خود مغرب میں بھی تنقیدکی زد میں رہے ہیں، اسلامی معاشرے میں ایک مسلمہ فکری رہنمائی کے طور پر پیش کرنا نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ ججوں پر عائد آئینی و قانونی ذمہ داری سے بھی روگردانی کے مترادف ہے۔ ایسا عدالتی رویہ اگر ضبط و احتیاط سے عاری ہو تو یہ پاکستان کے آئین کے بنیادی تصورات سے تصادم کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر جب مقامی تاریخ، مذہب اور روایت پر مبنی قانونی اصولوں کو نظرانداز کر کے درآمد شدہ افکار کو فیصلوں کا معیار بنایا جائے۔
مذکورہ فیصلہ ایک انتہائی انفرادی تصورِ قانون کو فروغ دیتا ہے، جس میں فرد کو خاندانی و سماجی ذمہ داریوں سے الگ کر کے صرف ایک خودمختار انسان کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ مفروضہ مان لیا گیا ہے کہ شادی شدہ ہونا کسی عورت کی قانونی اہلیت یا مالی ضرورت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے، جو کئی لحاظ سے اسلامی قانون کے اطلاقی پہلوؤں سے متصادم ہے۔ شریعت کی رو سے ازدواجی رشتہ نہ صرف حقوق کا مجموعہ ہے بلکہ اس کی بنیاد پر فرائض کی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ خاندان کی مالی کفالت، نان و نفقہ، اور خاندانی وابستگی جیسے عناصر محض معاشرتی روایت نہیں بلکہ دینی ذمہ داریاں ہیں۔ فیصلے میں فقہی تصورات جیسے نفقہ، مصلحت عامہ، اور دیگر فقہی نوعیت کے استدلالات سے استفادہ کر کے صنفی عدل کا ایک قابلِ قبول، دینی و ثقافتی لحاظ سے موزوں راستہ نکالا جا سکتا تھا، جو نہ صرف آئینی و قانونی زیادہ مؤثر بلکہ قانونی اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط و مربوط ہوتا۔
جسٹس شاہ کے فیصلے میں بین الاقوامی کنونشنز جیسے CEDAW کو اس انداز سے استعمال کیا گیا جیسے وہ پاکستان کے لئے بہت ہی اہم اور راہنما اصول ہوں۔ حالانکہ پاکستانی عدالتیں تسلسل سے یہ واضح کر چکی ہیں کہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ اس وقت تک مقامی قانون کا حصہ نہیں بنتا جب تک اسے قانون سازی کے ذریعے نافذ نہ کیا جائے۔ مزید یہ کہ پاکستان نے CEDAW جیسے کنونشنز پر بعض تحفظات کے ساتھ دستخط کئے تھے، جنہیں اس فیصلے میں سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں عدالتی بیانیہ ایسے قانونی تصورات کی ترویج کا سبب بنتا ہے جو پاکستان کے دینی و ثقافتی ڈھانچے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
جسٹس شاہ کے تحریر کردہ اس فیصلے کا لہجہ اور اسلوب کئی مقامات پر عدالتی اعتدال سے ہٹ کر ایک مخصوص نظریاتی فکر کی ترجمانی کرتا محسوس ہوتا ہے۔ کئی پیراگراف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بجائے کسی تحقیقی مقالے کا حصہ لگتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کو ہمیشہ متوازن، غیرجانبدار اور نظریاتی جہت سے آئین کے ساتھ مربوط ہونا چاہیے۔ جب کوئی عدالتی فیصلہ ایک خاص فکر، جیسے لبرل فیمنسٹ سوچ، کو ہی قابل قبول زاویہ قرار دے کر اختیار کر لے، تو وہ نہ صرف عدالتی وقار کو متاثر کرتا ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے۔
اگرچہ اس مقدمے میں ایک خاتون کو انصاف دلانا بذاتِ خود درست اور ضروری قدم تھا، لیکن جس انداز سے یہ مقصد حاصل کیا گیا وہ کئی حوالوں سے تشویش کا باعث ہے۔ فیصلہ ایک مخصوص نظریاتی فریم ورک پر کھڑا ہے جو نہ صرف اسلامی روایت میں اجنبی ہے بلکہ آئینی تقاضوں سے بھی متصادم دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ صنفی عدل و انصاف کے اصولوں کو اسلامی اور آئینی تناظر میں ڈھالے، اور ایسی جوریسپروڈنس تشکیل دے جو مقامی معاشرت، مذہب اور قانون سے ہم آہنگ ہو۔