اوورسیز پاکستانی کنونشن، اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقریر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کو اندرونی و بیرونی سطح پر کئی نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ تقریر نہ صرف ایک فوجی سربراہ کا خطاب تھا، بلکہ ایک ریاستی بیانیے کی وضاحت تھی جو نظریۂ پاکستان، قومی وحدت، ترقی کے سفر اور عالمی مسلم اُمہ کے ساتھ تعلق کے پہلوؤں کو ایک مربوط انداز میں سمیٹے ہوئے تھی۔
جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب کا آغاز دو قومی نظریے کی اساس کو دہراتے ہوئے کیا۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ "ہماری شناخت، مذہب، روایات، سوچ، اقدار اور عزائم سب کچھ ہندو معاشرے سے مختلف تھے، اور یہی احساسِ تفاوت پاکستان کے قیام کا محرک بنا۔” یہ الفاظ اس تصور پاکستان کو تقویت دیتے ہیں جسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض طبقات نے دھندلا کرنے کی کوشش کی۔ جنرل منیر کی اس تقریر نے اس حقیقت کو ازسرِ نو واضح کیا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، اور اس نظریے کو فراموش کرنا خود پاکستان کے وجود کی نفی کے مترادف ہوگا۔
آرمی چیف کا یہ کہنا کہ "پاکستان کی کہانی کو اپنی آنے والی نسلوں کو سنانا ہمارا قومی فریضہ ہے” ایک نہایت اہم نکتہ ہے۔
درحقیقت آج ہمیں صرف سڑکیں، عمارات اور منصوبے نہیں بلکہ ایک ایسی نسل تیار کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھے، اس سے فکری اور جذباتی وابستگی رکھے، اور قومی یکجہتی کو اپنا اثاثہ سمجھے۔
جنرل عاصم منیر نے سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ اور مثبت استعمال پر زور دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو قرآن کی روشنی میں واضح کیا۔ انہوں نے سورہ حجرات کی آیت 6 کی تلاوت کی، جو جھوٹی یا غیر مصدقہ اطلاعات کے پھیلاؤ سے پہلے تحقیق کی تلقین کرتی ہے، اور یاد دلایا کہ کس طرح بے بنیاد خبریں معاشروں میں انتشار کا سبب بن سکتی ہیں۔ جنرل منیر نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ سوشل میڈیا کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول، اس چیلنج کا مقابلہ صرف ریاستی سطح پر ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے عوام، خصوصاً نوجوانوں کی فکری پختگی، شعوری بیداری اور دانشمندانہ طرزِ عمل نہایت ضروری ہے۔ ان کا یہ مؤقف دراصل موجودہ دور کی معلوماتی جنگ (information warfare) کے ایک اہم محاذ کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں قومی بیانیے اور سچائی کا دفاع ہر محبِ وطن فرد کی ذمہ داری بن چکا ہے۔
آرمی چیف نے فلسطین اور کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ پاکستان کی غیر متزلزل یکجہتی کو اجاگر کیا، جو نہ صرف اصولی موقف کی علامت ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے ساتھ تاریخی اور جذباتی وابستگی کا تسلسل بھی ہے۔ ان کے خیالات یہ پیغام دیتے ہیں کہ پاکستان نہ صرف اپنے مفادات بلکہ مظلوموں کی حمایت کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون سمجھتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف عزم کو دہراتے ہوئے جنرل منیر نے بلوچستان میں سرگرم شرپسند گروہوں کو واضح پیغام دیا کہ ریاست اور قوم ان کے مذموم عزائم کو ناکام بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "دس نسلیں بھی آ جائیں تو بھی پاکستان اور بلوچستان کے تعلق کو کمزور نہیں کر سکتیں۔” ان کا مؤقف اس عزم کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی ریاست اور اس کے ادارے ملک دشمن عناصر کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اور قومی سالمیت کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنایا جائے گا۔ یہ پیغام درحقیقت اس فکری اور عملی تسلسل کا حصہ ہے جو پاکستان کو ایک مستحکم اور متحد ریاست بنانے کے عزم سے عبارت ہے۔
اس خطاب کا سب سے روشن پہلو پاکستان کے ترقیاتی سفر سے متعلق ویژن تھا۔ جہاں ایک جانب ماضی کے سوالات تھے کہ پاکستان کب ترقی کرے گا، وہاں اب ایک نیا زاویہ سامنے آیا ہے کہ "پاکستان کی ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے، اب سوال صرف اس رفتار کا ہے جس سے یہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گا۔” اس نئے بیانیے میں صرف امید نہیں بلکہ عملی عزم اور خود اعتمادی جھلکتی ہے، جو موجودہ نسل کو مایوسی، اضطراب اور انتشار سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اس فکر انگیز اور دوررس تقریر کا خیر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ یہ خطاب محض ایک موقع پر دیا گیا پیغام نہیں، بلکہ قومی وحدت، نظریاتی بیداری، اور ترقی کی نئی سمت کا تعین ہے۔ جب ریاست، عوام، افواج اور اوورسیز پاکستانی ایک وژن کے تحت ہم آہنگ ہو جائیں، تو کوئی خواب،خواب نہیں رہے گا،بلکہ پاکستان ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن ہوگا۔