بھارت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی مزید پابندی نہیں کرے گا اور اس معاہدے کو "معطل” کر رہا ہے، جب تک کہ پاکستان، جیسا کہ بھارت کا دعویٰ ہے، سرحد پار دہشت گردی کو ناقابل تردید اور مستقل طور پر ترک نہ کرے۔ یہ اعلان ایک تاریخی لمحہ ہے، کیونکہ اس سے برصغیر کی آبی سیاست میں ایک غیر یقینی اور خطرناک دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران، دونوں ممالک کے مابین جنگیں، سفارتی تعطل اور کشیدہ حالات دیکھنے میں آئے، لیکن سندھ طاس معاہدہ ان سب کے باوجود قائم رہا۔ پانی کے مسئلے پر ایک خاموش اور پائیدار تعاون برقرار رہا، جو اب شدید خطرے سے دوچار ہے۔
یہ فیصلہ محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹیجک قدم ہے، جو یہ طے کرے گا کہ دونوں جوہری ممالک اپنے سب سے بنیادی قدرتی وسیلے ‘پانی’ کو کس انداز سے سنبھالتے ہیں۔
ایک پیشگی انتباہ جو نظر انداز ہوا
نومبر 2019 میں قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے فیکلٹی ممبر، ڈاکٹر راجا قیصر نے ایک تنبیہی نوٹ لکھا تھا:
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، میں یہ توقع کرتا ہوں کہ انڈس واٹر ٹریٹی کی منسوخی مودی حکومت کا اگلا غیر معمولی قدم ہو سکتا ہے، جو پاکستان کے لیے غیر متوقع نتائج کا حامل ہوگا۔ پاکستان کے لیے یہ دانشمندی ہوگی کہ وہ اس ممکنہ پیش رفت کے لیے تیاری کرے، جو آئندہ پانچ سالوں کے اندر وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ بھارت اس پالیسی تبدیلی کے لیے کسی اندرونی سیکیورٹی واقعے کو جواز بنا سکتا ہے۔ موجودہ پالیسیوں کو متحرک کرنے والی ہندوتوا کی نظریاتی لہر کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

ڈاکٹر قیصر کی یہ پیش گوئی آج ایک حقیقت بنتی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کوئی فوری ردعمل نہیں بلکہ ایک دیرینہ نظریاتی اور پالیسی رجحان کا حصہ ہے۔
معاہدے کی نوعیت اور اہمیت
1960 میں طے پانے والا یہ معاہدہ چھ دریاؤں، راوی، بیاس، ستلج، سندھ، جہلم، اور چناب کی تقسیم کو واضح کرتا ہے۔ بھارت کو تین مشرقی دریا دیے گئے، جبکہ پاکستان کو مغربی دریا ملے۔ بھارت کو مغربی دریاؤں پر محدود استعمال کی اجازت ہے، مگر وہ ان کے بہاؤ کو مکمل طور پر نہیں روک سکتا۔
اس معاہدے کے تحت ایک مستقل سندھ کمیشن قائم ہے، جس میں دونوں ممالک کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ یہ فورم ڈیٹا کے تبادلے، منصوبوں کی منظوری اور تنازعات کے حل کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ بگلیہار اور کشن گنگا ڈیمز جیسے تنازعات بھی اسی طریقہ کار کے تحت حل کیے گئے۔
موجودہ چیلنج اور ممکنہ اثرات
اگرچہ بھارت کے پاس مغربی دریاؤں کا بہاؤ مکمل طور پر روکنے کی عملی صلاحیت محدود ہے، لیکن معاہدے کی قانونی ضمانت کا خاتمہ پاکستان کے لیے زراعت، توانائی، اور صوبائی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
زراعت کا دارومدار انہی دریاؤں کے قابلِ بھروسا بہاؤ پر ہے۔ فصلوں کی بوائی اور کٹائی کا نظام اسی پر مبنی ہے۔ بہاؤ میں معمولی تاخیر یا کمی بھی پیداوار پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ سندھ ڈیلٹا پہلے ہی پانی کی کمی سے متاثر ہے، اور مزید غیر یقینی صورتحال اس کی تباہی کو تیز کر سکتی ہے۔
پن بجلی کی پیداوار متاثر ہونے سے توانائی کا بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی، پانی کی صوبائی تقسیم کا مسئلہ بھی سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے، بالخصوص پنجاب اور سندھ کے درمیان۔
تاریخی تناظر اور حالیہ پیش رفت
2016 میں اُڑی حملے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو قومی سلامتی کے بیانیے سے جوڑنا شروع کیا۔ 2023 میں بھارت نے معاہدے کی نظرثانی کی درخواست دی، جو پاکستان نے مسترد کر دی۔ اس کے بعد دونوں ممالک نے متوازی طور پر مختلف قانونی فورمز اختیار کیے، بھارت نے غیر جانبدار ماہر، جبکہ پاکستان نے ثالثی عدالت کا راستہ چنا، جس سے معاہدے کا فریم ورک غیر فعال ہوتا دکھائی دیا۔
اب بھارت کی جانب سے معاہدے کی یکطرفہ معطلی پہلا موقع ہے جب کسی فریق نے کھلے عام اس فریم ورک سے باہر قدم اٹھایا ہے۔
کیا عقل غالب آئے گی؟
سندھ طاس معاہدہ اگرچہ کامل نہیں، لیکن اس نے جنگ اور امن دونوں حالات میں پانی کے مسئلے کو سفارت کاری کے دائرے میں رکھا۔ اب جبکہ یہ نظام کمزور ہو رہا ہے، تو ہر نیا منصوبہ یا ہر خشک موسم ایک ممکنہ بحران بن سکتا ہے۔
مغربی دریا پاکستان کے لیے صرف آبی وسائل نہیں بلکہ زندگی کی ضمانت ہیں۔ ان کے بغیر کوئی متبادل نہیں۔ ان کے بہاؤ کو روکنا خیر سگالی کا نہیں بلکہ خطے کی بقاء کا مسئلہ ہے۔
آنے والے مہینے اور سال یہ طے کریں گے کہ کیا برصغیر میں عقلمندی اور تعاون کی راہ چنی جاتی ہے، یا ہندوتوا کی نظریاتی کشتی، خطے کو پانی کے بحران میں دھکیلتی ہے، ایک ایسا بحران جو نہ صرف زراعت اور معیشت کو متاثر کرے گا، بلکہ خود امن اور استحکام کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔