نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز (NIPS) کے زیر اہتمام، 24 اپریل 2025 کو قومی رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے تعاون سے ایک علمی نشست کا انعقاد کیا گیا، جس میں امریکہ کی ممتاز اسکالر پروفیسر ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن نے "American Muslims 2025: Culture, Politics and Higher Education” کے عنوان پر خصوصی لیکچر دیا۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز سہ پہر 3:30 بجے ہوا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈائریکٹر، پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ انہوں نے ڈاکٹر ہرمینسن کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کے تحقیقی کام کو سراہا اور لیکچر کے موضوع کو عصرِ حاضر کے اہم ترین علمی مباحث میں سے ایک قرار دیا۔ ڈاکٹر حسن الامین نے کہا کہ آج کی یہ نشست ان تیز رفتار تبدیلیوں کے پس منظر میں منعقد ہو رہی ہے جو موجودہ عالمی منظرنامے کو تشکیل دے رہی ہیں۔ عالمی طاقتوں کا توازن، بین الاقوامی تعلقات کی تشکیلِ نو ( خواہ وہ ری سیٹلنگ ہو، ری سیٹنگ یا ری الائنمنٹ ) سب تیزی سے بدل رہا ہے۔ امریکہ کی موجودہ حکومت کی تجارتی محصولات (Tarrifs)، امیگریشن پالیسی، نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات جیسی پالیسیاں نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر حسن الامین نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ ہماری گفتگو کا محور صرف عالمی سیاست یا معیشت نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم میدان تعلیمی پالیسیوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ امریکہ کی جامعات میں فیڈرل فنڈنگ کی پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث علمی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ غلامی کے دور، بلیک اسٹڈیز اور اسلامک اسٹڈیز جیسے مطالعات، جو ہمیشہ سے تعلیمی آزادی اور تنقیدی فکر کا حصہ رہے ہیں، اب بجٹ کٹوتیوں، سیاسی دباؤ اور بعض اوقات اینٹی سیمیٹزم (Antisemitism)کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تعصب کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ ان حالات میں امریکی جامعات میں اسلام، مسلمانوں، بلیک امریکنز، افریقی نژاد اقوام، اور ایشیائی برادریوں کے مطالعے کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا علمی آزادی کو باقی رکھا جا سکے گا؟ کیا ان علوم کو وہی اہمیت حاصل رہے گی جو ماضی میں تھی؟

بعد ازاں پروفیسر ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن نے اپنے لیکچر میں امریکی مسلمانوں کی تاریخی جدوجہد اور معاصر مسائل کا جامع اور مدلل تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کی موجودگی اور ترقی کا پس منظر بیان کیا اور بتایا کہ کس طرح مختلف عالمی اور علاقائی واقعات جیسے سول رائٹس موومنٹ، مشرق وسطیٰ کی جنگیں، تیل کا بحران، ایرانی انقلاب اور افغان جہاد ، نے امریکی مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت کو متاثر کیا۔ انہوں نےنائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف اور اسلاموفوبیا کے فروغ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر ہرمینسن نے نشاندہی کی کہ 1990 کی دہائی میں "اسلاموفوبیا انڈسٹری” کی تشکیل نے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم منفی بیانیے کو فروغ دیا، جس کے اثرات آج بھی امریکی معاشرت میں موجود ہیں۔ 2012 میں امریکی شہروں میں بسوں پر جہاد مخالف اشتہارات اور ان پر مسلمانوں کا ردعمل اس کی مثال ہیں۔
انہوں نے حالیہ غزہ جنگ کے پس منظر میں امریکہ میں مسلمانوں کے بدلتے رویوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں درپیش نئی شناختی اور پالیسی چیلنجز پر بھی تفصیل سے بات کی۔ ان کے مطابق، موجودہ حالات میں مسلم طلبہ کو زیادہ مربوط حکمت عملی اور علمی پیش رفت کے ذریعے اپنی شناخت اور تعلیمی مقام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکچر کے بعد سوال و جواب کا ایک پُرجوش اور بامعنی سیشن منعقد ہوا جس میں محققین، طلبہ، ماہرین تعلیم اور پالیسی سازوں نے بھرپور شرکت کی۔ بحث کے دوران خاص طور پر امریکہ میں مسلمانوں کے تعلیمی اور سیاسی مستقبل پر غور و خوض کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مسلمانوں کو اپنی اجتماعی شناخت اور شہری کردار کو مضبوط بنانے کے لیے علمی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں مزید فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
نشست کے اختتام پر قومی رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے چیئرمین، خورشید احمد ندیم نے ڈاکٹر مارسیا ہرمینسن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو مغرب کے بجائے مشرق کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے ایڈورڈ سعید کی معروف کتاب Orientalism کا حوالہ بھی دیا۔
یہ علمی نشست نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز اور قومی رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کی جانب سے بین الاقوامی علمی مکالمے کے فروغ اور عصر حاضر کے حساس موضوعات پر فکر انگیز گفتگو کی ایک کامیاب کاوش ثابت ہوئی۔