مغل سلطنت کے عہد میں جب ہندوستان دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں شمار ہوتا تھا، وہاں شاہی خاندان کی خواتین نہ صرف محلوں کی اندرونی زندگی میں نمایاں حیثیت رکھتی تھیں بلکہ ثقافتی، تجارتی اور بعض اوقات سیاسی فیصلوں میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی تھیں۔ ان کی دولت اور اثرورسوخ اس حد تک تھا کہ یورپی سفارت کاروں اور تاجروں کے لیے ہندوستان میں کاروباری سرگرمیاں شروع کرنا ان کی خوشنودی کے بغیر ممکن نہ تھا۔
اُس وقت یورپ، خاص طور پر انگلینڈ، داخلی اور خارجی سطح پر زوال کا شکار تھا۔ ملکہ الزبتھ اول کے دور میں انگلینڈ کو ہندوستان جیسی امیر ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ اس ضمن میں انگریز نمائندوں کو ہندوستان کی شاہی خواتین کی قوت اور اثرورسوخ کا سامنا کرنا پڑا۔
1608ء میں سر ولیم ہاکنز مغلیہ دربار میں حاضر ہوا۔ اس نے دربار میں اثر حاصل کرنے کے لیے مقامی طرزِ زندگی اختیار کی، حتیٰ کہ ایک ہندوستانی خاتون سے شادی بھی کی۔ تاہم، ہاکنز اپنے خطوط میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ مغل دربار میں کامیابی تحائف اور مالی ترغیبات کے بغیر ممکن نہ تھی، اور خواتینِ دربار کی منظوری کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ [1]

بعد ازاں، سر تھامس رو نے 1615ء میں بادشاہ جہانگیر کے دربار میں انگلستان کی سفارتی نمائندگی کی کوشش کی، لیکن باوجود کوششوں کے، وہ بھی شاہی خواتین، خصوصاً نورجہاں بیگم کی سیاسی بصیرت اور اختیارات کے باعث کوئی مستقل تجارتی معاہدہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
اسی دوران ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے: 1613ء میں پرتگالیوں نے مغلیہ سلطنت کے شاہی جہاز "رحیمی” پر قبضہ کر لیا، جو اکبر کی بیوی اور جہانگیر کی والدہ مریم الزمانی کی ملکیت تھا۔ اس واقعے کے ردعمل میں جہانگیر نے پرتگالیوں کے خلاف سخت اقدامات کیے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغل خواتین تجارتی اور سیاسی معاملات میں کس حد تک بااثر تھیں۔ [2]
مغل خواتین کے اسی اثرورسوخ نے یورپ میں ہندوستان کی ایک منفرد شبیہ قائم کی۔ سترہویں صدی کے اوائل میں منعقد ہونے والے لندن کے عوامی جشنوں میں ہندوستان کو ایک دولت مند اور باوقار خاتون کے روپ میں پیش کیا جانے لگا۔ تھامس مڈلٹن کے ڈرامے The Triumphs of Honour and Industry (1617ء) میں ہندوستان کو ایک دیوی نما شخصیت کے طور پر دکھایا گیا ہے جو ہاتھ میں سونے کا گولا تھامے، خوشحالی اور زرخیزی کی علامت کے طور پر جلوہ گر ہوتی ہے۔ [3]
مڈلٹن کی تحریر میں ہندوستانی "دیوی” نہ صرف مصالحہ جات، پھلوں اور خوشبودار اشیاء کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ تجارتی و صنعتی ترقی کی سرپرست بھی ہے۔ لیزا بلا بانلیلار کے مطابق مغل خواتین کا کردار نہایت فعال تھا؛ وہ صرف خاندانی امور تک محدود نہ تھیں بلکہ فوجی اور حکومتی معاملات میں بھی بھرپور شرکت کرتی تھیں۔ [4]
اس تناظر میں مڈلٹن اور دیگر معاصر مصنفین کی پیش کردہ تصویریں موجودہ دور کے "مظلوم مشرقی عورت” کے تصور سے بالکل مختلف ہیں۔ ان تحریروں میں ہندوستانی خواتین کو معاشی طاقت کی علامت اور ریاستی معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی شخصیات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لُبابہ الاعظمی کا کہنا ہے کہ ان ڈراموں میں ہندوستانی خواتین کو تجارتی خوشحالی اور عالمی تجارت میں کلیدی حیثیت کی حامل دکھایا گیا ہے، نہ کہ جنسی یا ثقافتی محکومی کی علامت کے طور پر۔ [5]
البتہ یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ یہ بیانیے یورپی مرد مصنفین کے توسط سے تشکیل پائے، اور ان میں بعض اوقات ہندوستان کو ایک دلہن کے استعارے میں پیش کر کے نوآبادیاتی عزائم کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ مغل خواتین سلطنت کی دولت کی مالک تھیں، تجارت سے حاصل شدہ آمدنی پر تصرف رکھتی تھیں اور ریاستی اخراجات میں نمایاں کردار ادا کرتی تھیں۔
یوں مغل سلطنت میں خواتین نے جو معاشی و سیاسی کردار ادا کیا، وہ نہ صرف اپنے وقت کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے بلکہ عالمی تجارتی نظام میں ہندوستان کے اثرورسوخ کو سمجھنے میں بھی مددگار ہے۔
حواشی:
[1] William Foster, Early Travels in India, 1583–1619 (Oxford: Clarendon Press, 1921), 98–100.
[2] Muzaffar Alam and Sanjay Subrahmanyam, The Mughal State, 1526–1750 (New Delhi: Oxford University Press, 1998), 389–392.
[3] Thomas Middleton, The Triumphs of Honour and Industry (London, 1617).
[4] Lisa Balabanlilar, Imperial Identity in the Mughal Empire: Memory and Dynastic Politics in Early Modern South and Central Asia (London: I.B. Tauris, 2012), 97–103.
[5] Lubaaba Al-Azami, “Staging the East India Company: Spectacle, Commerce, and Globalism in Early Modern London,” The Seventeenth Century 36, no. 3 (2021): 379–393.
مضمون نگار لوسی مورگن یونیورسٹی آف مانچسٹر میں انگریزی ادب کے آخری سال کی طالبہ ہیں، اور ان دنوں The American New Woman in the 19th century کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کر رہی ہیں۔ وہ مختلف ڈیجیٹل اداریہ جاتی اشاعتوں اور اپنی جامعہ کے اخبار کے لیے بھی مضامین لکھ چکی ہیں، جن میں طرزِ زندگی، رائے اور فیشن کے شعبے شامل ہیں۔
یہ مضمون Medieval and Early Modern Orients (MEMOs) کی ویب سائٹ پر انگریزی میں شائع ہوا، جس کا اردو ترجمہ یہاں شائع کیا جارہا ہے۔