ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے کے بعد ایک بار پھر یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ آیا روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں قائم ہونے والے انقلاب کی جگہ کسی نئی حکومت کا وقت آ گیا ہے؟ امریکہ، اسرائیل اور بعض دیگر ممالک ایک عرصے سے ایرانی عوام کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے بغاوت پر اکساتے رہے ہیں تاکہ موجودہ حکومت کا تختہ الٹ کر پہلوی دور کی طرز کی مغرب نواز، لبرل رجیم کو دوبارہ قائم کیا جا سکے۔
ایران کی موجودہ پالیسیوں سے نالاں بعض پاکستانی حلقے بھی اس خیال کے حامی نظر آتے ہیں کہ “خمینی–خامنہ ای رجیم” کو اب بدل جانا چاہیے۔ ایرانی انقلاب کو برآمد کرنے کی کوششیں، “شیعہ ہلال” کی تکمیل کی خواہش، بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات اور انٹیلی جنس تعاون جیسے عوامل ایسے حقائق ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان میں ایران کی موجودہ حکومت کے بارے میں سخت نقطۂ نظر کسی حد تک قابلِ فہم ہے۔ کلبھوشن جیسے عناصر کا ایران سے آپریٹ کرنا، سابقہ حکومت کے دور میں مبینہ طور پر ایرانی لابی کے زیرِ اثر خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ، جیسے کئی معاملات، پاکستان اور ایران کے بظاہر برادرانہ تعلقات کے پسِ پردہ تناؤ اور بداعتمادی کو نمایاں کرتے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ان وجوہات کی بنیاد پر ایران میں حکومت کی تبدیلی کی حمایت کی جانی چاہیے؟ ہماری رائے میں اس کا جواب نفی میں ہے، اور اس کی دو بنیادی اور ٹھوس وجوہات ہیں:
اولاً، ایران میں موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد غالب امکان یہی ہے کہ وہاں ایک امریکہ اور اسرائیل نواز حکومت قائم ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک دور میں شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی اس خطے میں امریکی ایجنڈے کا علَم بردار تھا اور پاکستان کی پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہوتا رہا۔ اگر دوبارہ ایران میں ایسی ہی کوئی حکومت قائم ہوئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہماری مغربی سرحد پر امریکہ و اسرائیل کا براہِ راست اثر و رسوخ قائم ہو جائے گا۔ امریکہ تو بہرحال افغانستان میں بھی موجود رہا ہے، مگر اسرائیل کا ہماری سرحد کے ساتھ موجود ہونا پاکستان کے لیے نہایت خطرناک اور ناقابلِ قبول ہوگا۔ اسرائیل نے حالیہ پاک–بھارت کشیدگی میں کھل کر بھارت کی حمایت کی ہے، اور اگر اسے ایران میں عسکری ٹھکانے مل گئے تو عمان، یو اے ای اور بحرین کی طرح ایران بھی اسرائیل کے ساتھ کھلے تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ ایسے میں موجودہ ایرانی حکومت، اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود، اس لیے بہتر ہے کہ وہ کم از کم اسرائیل کو ہمارے پڑوس میں جگہ نہیں دیتی۔
ثانیاً، ایران میں موجودہ حکومت کا برقرار رہنا پاکستان کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی ممالک کے تناظر میں اسٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تزویراتی تعلقات کی ایک اہم بنیاد سعودی عرب کی دفاعی ضروریات ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں اور اس کے بعد بھی، امریکہ کی طرف سے سعودی عرب پر دباؤ رہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے تاکہ ایران سے لاحق خطرات کے مقابلے کے لیے اسرائیلی تعاون حاصل کیا جا سکے۔ اسی تناظر میں جب پاکستان نے یمن کے مسئلے پر سعودی عرب کی خواہشات کے مطابق کردار ادا نہیں کیا تو سعودی قیادت نے ناراضی کا اظہار بھی کیا۔ اب ایک بار پھر امریکہ اور اسرائیل خلیجی ریاستوں کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی سے علاقائی خطرات کم ہوں گے، اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے سعودی عرب کو پاکستان جیسی ریاستوں پر دفاعی انحصار ختم کرنے کا موقع ملے گا۔
پاکستان کے لیے یہ ایک خطرناک پیش رفت ہوگی۔ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک اور معاشی تعلقات برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ لاکھوں پاکستانی محنت کش سعودی عرب میں روزگار حاصل کیے ہوئے ہیں اور ملک کو قیمتی زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ پاک فوج کے اہلکار سعودی فورسز کو تربیت دیتے ہیں، اور ہماری کئی معاشی ضروریات سعودی تعاون سے پوری ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایران کی موجودہ حکومت کی موجودگی میں پاکستان کی خطے میں اہمیت برقرار ہے، جبکہ ایک امریکہ–اسرائیل نواز حکومت کے آنے سے پاکستان کی یہ حیثیت متاثر ہو سکتی ہے۔
ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کو سعودی یا امریکی نقطۂ نظر کے بجائے خالصتاً پاکستانی مفاد کے تناظر میں پرکھا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ ایران کی بعض پالیسیوں نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے، مگر جو خطرات ایک نئی اسرائیل نواز حکومت کے تحت پیدا ہوں گے، وہ موجودہ صورتِ حال سے کہیں زیادہ سنگین اور نقصان دہ ہوں گے۔