Author: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
لکھاری گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور المورد کے ساتھ بطور ریسرچ فیلو وابستہ ہیں۔
خلافت سے ملوکیت کی طرف انتقال کی بحث مولانا مودودی ؒ کی کتاب کے بعد ہمارے ہاں ایک مستقل موضوع ہے۔ حال ہی میں جناب جاوید احمد غامدی نے اس پر اپنا تفصیلی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ اس تناظر میں مولانا عمار خان ناصر نے اپنی فیس بک وال پر ایک تجزیہ پیش کیا ہے،جسے ان کے شکریہ کے ساتھ اہل علم کے ملاحظہ کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ) حضرت معاویہ کے، انتقال اقتدار کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ملوکیت کو اختیار کر لینے کی یہ توجیہ کہ ان کے پاس معروضی حالات…
اس پروگرام کی ابتدا 2016 کے آخر اور 2017 کے اوائل میں ڈاکٹر ابراہیم موسی نے کی جو بنیادی طور پر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی دینی تعلیم ہندوستان کے بعض بڑے مدارس جیسے دار العلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء میں ہوئی۔ اب وہ تقریبا ربع صدی سے امریکی جامعات میں ہیں اور تعلیم و تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ پروگرام ان کے دوست، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سیکریٹری مولانا امین عثمانی صاحب (جن کا گزشتہ سال انتقال ہو چکا ہے) کی باہمی مشاورت بلکہ بقول ڈاکٹر ابراہیم موسی، مولانا امین عثمانی صاحب…
عالمِ شہود کے ساتھ ایک عالمِ غیب کا وجود اور ان کے باہمی تعلق کی نوعیت کا سوال انسانی شعور کے لیے ایک غیر فانی سوال کے طور پر ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کو جن گہرے اور پیچیدہ سوالات کا سامنا ہے، عالم شہود ان کا جواب فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہے، اور خود عالم شہود اور اس کے مختلف مظاہر کی تفہیم وتوجیہ کے لیے انسانی شعور کو مابعد الطبیعیاتی تصورات اور ان پر مبنی ایک نظام وجود کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اساطیری مذاہب میں متھالوجی، مبنی…
حریفانہ کشاکش سیاست واقتدار کا جزو لاینفک ہے اور تضادات کے باہمی تعامل سے ہی سیاسی عمل آگے بڑھتا ہے۔ برطانوی استعمار نے اپنی ضرورتوں کے تحت برصغیر میں جہاں پبلک انفراسٹرکچر، تعلیم عامہ، ابلاغ عامہ، بیوروکریسی اور منظم فوج جیسی تبدیلیاں متعارف کروائیں، وہیں نمائندگی کا سیاسی اصول بھی متعارف کروایا۔ یہ پورا مجموعہ کچھ داخلی تضادات پر مشتمل تھا جس نے نئی سیاسی حرکیات کو جنم دیا۔ چنانچہ تعلیم، ابلاغ عامہ اور نمائندگی کے باہمی اشتراک سے استعمار کے خلاف مزاحمت کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر استعمار کو یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ تقسیم کے بعد پاکستانی…
عبادت گاہوں سے متعلق مسلم فاتحین کے طرز عمل پر گفتگو قصدا عہد صحابہ کی بعض مثالوں تک محدود رکھی گئی، کیونکہ مقصد صلح وجنگ کے مخصوص عرف اور اس پر مبنی ضابطوں کی وضاحت تھی جو اسلامی تاریخ کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے۔ اس کی اصولی وضاحت کے لیے عہد صحابہ کے فیصلے ہی زیادہ موزوں ہیں۔ ان کی روشنی میں بعد کی تاریخ میں مسلم فاتحین کے طرز عمل کے مناسب یا نامناسب ہونے پر گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن اس کے برعکس بعد کے واقعات کی تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی عمومی حکم متعین…
آیا صوفیہ سے متعلق ترکی عدالت کے فیصلے نے اسلامی شریعت،مسلم تاریخ اور مذہبی رواداری کے حوالے سے مسلمانوں کے طرز عمل کے بارے میں بہت بنیادی نوعیت کے سوال اٹھا دیے ہیں اور ان سوالات پر گفتگو کے لیے عالمی سطح پر ایک بہت اہم موقع پیدا کیا ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے اس پوری بحث کی درست تفہیم کے لیے جو چند بنیادی پہلو پیش نظر رکھے جانے چاہییں، وہ حسب ذیل ہیں۔ ۱۔ کسی معاملے سے متعلق مذہبی حکم کی تعیین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ شرعی نصوص میں اس حوالے سے مسلمانوں کو کس چیز…
زنا یعنی جنسی تسکین کو معاشرتی حدود وقیود سے مقید کیے بغیر جائز قرار دینے کے حوالے سے بعض مسلمان متکلمین نے یہ دلچسپ بحث اٹھائی ہے کہ شرعی ممانعت سے قطع نظر کرتے ہوئے، کیا یہ عمل عقلا بھی قبیح اور قابل ممانعت ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں حنفی فقیہ امام جصاص اور شافعی فقیہ امام الکیا الہراسی کے ہاں دو مخالف زاویہ ہائے نگاہ کی ترجمانی ملتی ہے۔ جصاص کا کہنا ہے کہ زنا عقلا قبیح ہے، کیونکہ اس کی زد بچے کے نسب اور کفالت وغیرہ کے معاملات پر پڑنا ناگزیر ہے، اس لیے ان سوالات…
بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون کے تناظر میں ہمارے ہاں یہ سوال ان دنوں دوبارہ اٹھا یا جا رہا ہے کہ آیا دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہند کا عمل درست تھا یا نہیں اور یہ کہ کیا متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن آج کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہ ہوتی؟ یہ سوال وقتا فوقتا موضوع بحث بنتا رہتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایک بڑا حلقہ اس بحث کے دائرے سے ابھی تک باہر نہیں آ سکا کہ تقسیم ہند درست تھی یا غلط اور یہ کانگریس کا منفی رویہ تھا یا…