Author: ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
لکھاری قانون کے استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلی عدلیہ کو مختلف مقدمات میں شریعت و قانون کے حوالے سے معاونت فراہم کرتے ہیں۔
اس موضوع پر اپنی پہلی پوسٹ میں میں نے دس نکات ذکر کیے تھے جن میں صرف ایک نکتے پر، حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہ نے تبصرہ کرنا مناسب سمجھا اور وہ ارتداد کے متعلق میری راے تھی۔ ان کو یہ تاثر ملا ہے کہ شاید میں ارتداد کی بحث نئے سرے چھیڑرہا ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ارتداد، زندقہ، فتنہ وغیرہ کی باتیں دوسرے اہل علم کررہے ہیں اور مجھ سے کئی لوگوں نے اس کے متعلق استفسار کیا تو مجھے وضاحت کرنی پڑی کہ میری ذاتی راے یہ ہے لیکن دستوری اور قانونی پوزیشن اس سے مختلف ہے۔ میری اس موجودہ پوسٹ سے شاید میری بات زیادہ واضح ہوگئی ہو کہ میں اس موجودہ دستوری پوزیشن کو چھیڑنے کے حق میں نہیں ہوں اور اسی لیے میں اس سوال پر بحث ہی نہیں کررہا کہ یہ دستوری پوزیشن کسی اجتہاد کے نتیجے میں مقرر کی گئی ہے، جیسا کہ حضرت علامہ راشدی صاحب بارہا علامہ اقبال کے مشورے کا حوالہ دیتے ہیںِ یا یہ محض وقتی طور پر ایک ممکنہ حل تھا جو 1974ء میں معروضی حالات میں ممکن تھا اور اسی وجہ سے قبول کیا گیا کہ یہ ہوجائے تو پھر بعد میں اس سے آگے جائیں گے، جیسا کہ کئی دیگر اہل علم کی راے ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ یہ اجتہاد ہو یا وقتی ممکنہ حل، اسے تبدیل کرنے کی کوشش کے مفاسد زیادہ ہوں گے اور اس لیے اس دستوری و قانونی پوزیشن پر اکتفا کرکے اس کی روشنی میں قادیانی فتنے، یا زندقہ، یا ارتداد سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنا چاہیے۔
رویتِ ہلال کے مسئلے پر جناب پوپلزئی صاحب اور پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی اور نوشہرہ کے مقامی علماے کرام سے ہمارا بنیادی اختلاف اس نکتے پر ہے کہ ہمارے نزدیک شرعاً اس معاملے میں حکمِ حاکم ضروری ہے۔ ہاں، جہاں مسلمانوں کا حکمران نہ ہو، یا اس نے اس معاملے میں فیصلے سے کنارہ کشی کی راہ اختیار کی ہو، تو وہاں مقامی مسلمانوں کو جس عالم کے فیصلے پر اعتماد ہو، وہ ان کے فیصلے پر روزہ و عید کا اہتمام کریں۔باقی رہے رویت، شہادت اور فلکی حسابات یا اختلافِ مطالع کے مسائل، تو وہ ہماری نظر میں ثانوی…
یہ سوال عموما سامنے آتا ہے کہ علماے کرام کیوں سماجی تبدیلی کو بہت مشکل سے قبول کرتے ہیں اور پھر آخر میں مان ہی جاتے ہیں تو شروع میں کیوں نہیں مانتے؟ وہ اس ضمن میں لاؤڈ سپیکر، تصویر اور اسی نوعیت کی دوسری مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جنھوں نے سوال کیا ہے، انھوں نے تو نہیں ماننا لیکن عام لوگوں کو چونکہ اس پروپیگنڈے سے غلط فہمی کا امکان ہے، اس لیے ان کی آسانی کی خاطر چند نکات پیشِ خدمت ہیں: 1۔ سب سے پہلی بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ علماے کرام کو…
امام طحاوی نے اس متن کی ابتدا میں تصریح کی ہے کہ جس عقیدے کو وہ یہاں الفاظ کی شکل دے رہے ہیں، یہ اہل سنت کے فقہاے کرام بالخصوص امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین کا عقیدہ ہے:هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري وأبي عبدالله محمد بن الحسن الشيباني رضوان الله عليهم أجمعين وما يعتقدون من أصول الدين ويدينون به رب العالمين۔ پہلا اقتباس: تمام صحابۂ کرام سے محبتو نحب اصحاب رسول اللہ ﷺ ، و لا نفرط فی حب احد منھم…
سوشلسٹ روس کے زوال کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے کئی دیسی سوشلسٹ مشرف بہ امریکا ہو کر "لبرل” کہلانے لگے۔ دیسی سوشلسٹ کم از کم فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں اور اسرائیل و امریکا کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے ۔ تاہم کایاپلٹ کے بعد "شوقیہ لبرل” بننے والے تو خیر و شر کا فرق ہی بھول گئے ہیں ۔ ان شوقیہ لبرلز کی دیکھا دیکھی "اعتدال” اور "داعیانہ اسلوب” کے مدعی مولوی صاحبان بھی اسرائیل اور امریکا کے خلاف بولنے والوں کو کوسنے دینے لگے ہیں ۔ ایک عام مغالطہ یہ پیش کیا جاتا…