گذشتہ دنوں برادر عزیز ڈاکٹر عمار خان ناصر کی معیت میں چنیوٹ کے علاقہ محمدی شریف میں جانےکا اتفاق ہوا۔ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے زیر اہتمام چنیوٹ کی ایک قدیم دینی درسگاہ ،جو اپنی ابتدا سے ہی دینی و عصری علوم کے امتزاج کا بہترین نمونہ ہے، جامعہ محمدی شریف میں ایک تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد ہورہا تھا۔ ادارہ کے بانیوں میں دوشخصیات مولانا محمد ذاکر ؒ اور مولانا محمد نافعؒ کا نام بالخصوص سامنے آتا ہے۔ مولانا محمد ذاکرؒ کی پہچان ان کے تلامذہ اور جامعہ محمدی شریف ہے جبکہ مولانا محمد نافع ؒ کی پہچان بیسویں صدی کی معرکۃ الآراء کتاب "رحماء بینھم” ہے۔
دونوں بزرگوں کے کام سے تو ہم سب ہی واقف ہیں مگر میری خواہش تھی کہ دونوں شخصیات کے احوال سے واقفیت حاصل ہو۔ چنانچہ عمار بھائی کی معیت میں یہ خواہش پوری ہوئی اور تصویروں میں نمایاں مٹی اور گارے کے آمیزش سے بنے ایک گھر کے وسیع دالان میں ہم داخل ہوئے۔ ایک کچا کمرہ بارشوں کی وجہ سے مکمل طور پر منہدم ہوچکا تھا۔ دوسرا ابھی قایم و دایم ہے۔ یہی دو کمرے ان دونوں کے مسکن تھے۔ ہم اس منہدم اور رو بہ زوال کمرہ نما خانقاہوں کے بالکل سامنے صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ چکے تو ہمیں معلوم ہوا کہ مٹی سے بنے یہ گھروندے اصل میں ان دو گوہر نایاب کا مسکن تھے۔ وہ عالی المرتبہ مکین کون جن کے بودوباش نے لکڑ اور سرکنڈوں سے بنی اس چھت کو آسمانوں کی رفعت عطا کی۔ یہی ہمیں معلوم ہواکہ اس کمرے میں "رحما بینھم” جیسی شاہکار کتاب لکھی گئی۔
مولانا محمد ذاکرؒ اور مولانا محمد نافع ؒ اپنے علم و فضل اور زہد و تقوی کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف رہے۔ ہم چھوٹے لوگ ہیں اس لیے بڑے گھروں کی نمایش سے اپنا قد اونچا کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں۔مولانا محمد ذاکرؒ اور مولانامحمد نافعؒ جیسے بڑے لوگ کچے گھروندوں کی پہچان بدل دیتے ہیں اور مرجع تقلیدو روحانیت بن جاتے ہیں۔
مولانا محمد ذاکرؒ تو 70 کی دہائی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے جبکہ مولانا محمد نافعؒ کو زندگی نے زیادہ فرصت عطا کی اور وہ اپنی آخری عمر تک تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول رہے۔ان کچے کمروں میں مذکورہ دونوں بزرگوں کے پاس اپنے دور کے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے آئے۔ دور دراز سے لوگ ان کی زیارت کرنے آتے لیکن وہ کسی کو اپنا ہاتھ چومنے نہیں دیتے تھے۔ وہ کسی کے عقل و شعور کی باگیں اپنے ہاتھوں میں لینے کے حق میں نہیں تھے۔ مولانا محمد ذاکرؒ دو دفعہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔ ووٹرز ان سے ملنے آتے تو ان کو بتاتے کہ یہ یہ لوگ میرے سمیت الیکشن لڑ رہے ہیں، جسے بہتر سمجھتے ہو ووٹ دے دینا۔ جامعہ محمدی شریف سے کسی قسم کا مالی فائدہ اپنے اوپر حرام سمجھتےتھے۔مولانا محمد نافعؒ لکڑی کے بنے ایک تخت پر سوتے، بیٹوں عمر مختار اور ابوبکر صدیق نے کمروں سے متصل برآمدے میں پکی اینٹیں استمعال کرکے خستہ حالی کو چھپانے کی کوشش کی تو سخت ناراض رہے کہ تم میرے آخرت کا گھر خراب کررہے ہو اور مرتے دم تک اس برآمدے میں داخل ہونے سے گریز کرتے رہے۔ جامعہ محمدی شریف میں موجود لائبریری میں موجود شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس پر ان کے حواشی موجود نہ ہوں ۔ جو کتاب پڑھ لی اس پر ختم شد لکھنے کی عادت تھی، بعض کتب پر تنقیدی نوٹس بھی موجود ہیں۔ خوشی ہوئی کہ مولانا محمد ذاکرؒ کے پوتے صاحبزادہ قمر الحق اس خزینے کو محفوظ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
وطن عزیز کے سیکولر لبرل طبقے کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ ان کچے گھروندوں میں رہائش پذیر ان بڑی علمی اور روحانی ہستیوں کے اس لازوال کردار سے واقف ہی نہیں جو چنیوٹ اور گردونواح کے کسانوں اور کاشتکاروں کی زندگیوں میں رچا بسا نظر آتا ہے۔