بنگلہ د یش کے معصوم طلبہ شاید یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کتنی بڑی تبدیلی کا راستہ ہموار کیا ہے اورمسلم نیشنل از م کے مخا لفو ں کے کتنے اہم دلائل کو دریا برد کر دیا ہے۔ اگر یہ بات اتنی سادہ ہوتی، تو اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ ما ن لیا کہ 1971 کی تحریک کی طرح، آج کی تحریک بھی مقامی ہے۔ اگر عوامی لیگ نے پچھلے تین انتخابات میں اتنی دھاندلی نہ کی ہوتی، تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ لیکن اس مقامی تبدیلی کے نیچے ایک نظریاتی لہر بھی ہے۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ سیکولر عوامی لیگ کے مقابلے میں، بنگلہ دیش نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، اور دیگر طلبہ تنظیموں میں بے شمار اسلام پسند طلبہ کی امیدیں شامل ہیں۔ اور اس وقت کے سیاسی ا کٹھ میں معا شر ے کے روشن خیا ل طبقا ت جن کی نما ئند گی ڈاکٹر یونس کر رہے ہیں، ا ن کے سا تھ عوامی لیگ کے ظلم کے ہاتھوں مجبو ر دائیں بازو کے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں ۔ اس سب نے ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے جو پورے برصغیر کی سیاست کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔