اسلام آباد، 24 اکتوبر 2024 – سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج ایک جامع فیصلے میں ملک کی عوامی جامعات میں جاری بدانتظامی کو بے نقاب کیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں یہ فیصلہ آل پبلک یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن بمقابلہ وفاق پاکستان کیس میں سنایا گیا، جس میں جامعات کی جانب سے وفاقی اور صوبائی قوانین کی خلاف ورزیوں کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ خالی عہدوں، نگرانی کے فقدان، اور انتظامی خرابیوں کی وجہ سے ہونے والے سنگین نتائج پر مبنی ہے۔
درخواست آل پبلک یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جو ملک بھر میں تقریباً 50 ہزار اساتذہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایسوسی ایشن نے عدالت سے درخواست کی کہ عوامی جامعات کو ان کے قوانین کے مطابق چلانے کے لیے احکامات جاری کیے جائیں۔ درخواست میں سامنے آنے والے سب سے اہم مسائل تین تھے:
- قیادت کی خالی اسامیاں: 147 عوامی جامعات میں سے 60 جامعات بغیر وائس چانسلر کے چل رہی ہیں۔ رجسٹرار، ڈین، اور کنٹرولر امتحانات جیسے کلیدی انتظامی عہدے یا تو خالی ہیں یا عارضی بنیادوں پر دیے گئے ہیں، جس سے جامعات کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
- انتظامی باڈیز کی غیر فعالیت: جامعات کے بورڈ آف گورنرز، سنڈیکیٹ، سینیٹ اور اکیڈمک کونسل جیسے ادارے اپنی لازمی میٹنگز نہیں کر رہے، جو قانون کے تحت لازم ہیں۔ اس کے نتیجے میں نگرانی کا فقدان ہے اور فیصلے عارضی ملازمین کر رہے ہیں، جس سے شفافیت اور احتساب متاثر ہو رہا ہے۔
- قانونی خلاف ورزیاں اور بنیادی حقوق کی پامالی: عدالت نے قرار دیا کہ عوامی جامعات میں قوانین پر عملدرآمد نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 25 (برابری کا حق) اور آرٹیکل 25A (16 سال تک کے بچوں کے لیے تعلیم کا حق) کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں، آرٹیکل 9 (زندگی کا حق) کو زندگی کی تمام سہولیات میں شامل کیا گیا، جس میں تعلیم کا حق بھی شامل ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا کہ عوامی جامعات میں ہونے والی یہ خلاف ورزیاں طلباء، اساتذہ اور عوام کے مفادات کے خلاف ہیں۔ عدالت نے “ایکٹنگ چارج” کے کلچر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ سیاسی مداخلت اور نااہلی کا دروازہ کھولتا ہے۔
بیشتر جامعات میں غیر تعلیمی عملے کی تعداد حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے مطابق غیر تعلیمی عملے کا تناسب تعلیمی عملے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، لیکن کئی جامعات میں یہ تناسب حد سے زیادہ ہے، جس سے مالی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
عدالت نے جامعات میں وائس چانسلرز اور دیگر کلیدی عہدوں پر تقرریوں میں ہونے والی غیر ضروری تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا۔ یہ تاخیر انتظامی خلا پیدا کر رہی ہے اور یونیورسٹیوں کی کارکردگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
عدالت نے قائداعظم یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے اقدام کی تعریف کی اور دیگر جامعات کو بھی اس کی تقلید کرنے کی ہدایت کی، تاہم اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ طلبہ یونینز فرقہ وارانہ یا نسلی بنیادوں پر تقسیم نہ ہوں۔
عدالت نے صورتحال کی بہتری کے لیے کئی اہم ہدایات جاری کیں:
تمام خالی وائس چانسلر اور دیگر کلیدی عہدوں کو جلد از جلد پُر کیا جائے اور یہ تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر اور شفاف طریقے سے کی جائیں۔
عوامی جامعات کی انتظامی باڈیز اپنی لازمی میٹنگز باقاعدگی سے منعقد کریں اور یہ میٹنگز عوام کے سامنے رکھی جائیں تاکہ شفافیت برقرار رہے۔
جامعات میں تعلیمی اور غیر تعلیمی عملے کا تناسب ایچ ای سی کی ہدایات کے مطابق ہو۔ جن جامعات میں یہ تناسب حد سے تجاوز کر چکا ہے، وہاں غیر تعلیمی عملے کی مزید بھرتیاں روکی جائیں گی۔
عدالت نے حکم دیا کہ تمام عوامی جامعات میں طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے، تاکہ طلباء کی نمائندگی اور مسائل کا حل جمہوری طریقے سے کیا جا سکے۔
عدالت نے عوامی جامعات کے فنڈز کے غیر قانونی استعمال کی جانچ کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو خصوصی آڈٹ کرنے کا حکم دیا، تاکہ مالی بے ضابطگیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
عدالت کی سماعت کے دوران وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نمائندوں نے تسلیم کیا کہ عوامی جامعات میں بدانتظامی کے سنگین مسائل ہیں اور اصلاحات کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، عدالت نے ان اداروں کو بروقت اصلاحات نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
فیصلے کا ایک بڑا حصہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی انتظامی ناکامیوں اور غیر قانونی اقدامات پر مبنی ہے۔ عدالت نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اس کے مختلف شعبوں میں بدانتظامی کا سخت نوٹس لیا اور درج ذیل اہم احکامات جاری کیے:
- ڈاکٹر ثمینہ ملک، ریکٹر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہی تھیں۔
- ریکٹر کا عارضی چارج ایچ ای سی کے چیئرمین یا ان کے نامزد کردہ ممبر کو دینے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
- یونیورسٹی کے چانسلر/صدر پاکستان کو ہدایت دی گئی ہے کہ ڈاکٹر ثمینہ ملک کی معطلی کے بعد مناسب اقدامات کیے جائیں۔
- عدالتی فیصلے کے مطابق ڈاکٹر ثمینہ ملک وزارت تعلیم اور ایچ ای سی کی رپورٹوں کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام ثابت ہوئیں۔
- عدالت نے ڈاکٹر ثمینہ ملک کے خلاف باقاعدہ چارج شیٹ کا بھی ذکر کیا، جس میں ان کی نااہلی ثابت کی گئی۔
- ڈاکٹر سرور کی بطور قائم مقام پریذیڈنٹ تقرری غیر قانونی قرار دے دی گئی اور سینئر وائس پریذیڈنٹ کو عارضی طور پر یہ عہدہ سنبھالنے کا حکم دیا گیا۔
- عدالت نے بورڈ آف گورنرز اور بورڈ آف ٹرسٹیز کی فوری میٹنگز کے انعقاد کا حکم بھی دیا۔
- اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی انتظامیہ نے وفاقی حکومت سے سالانہ بجٹ لینے کے باوجود عدالت کے سامنے اسے پبلک سیکٹر ادارہ ماننے سے انکار کیا، جس پر عدالت نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔
- اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا اسپیشل فنانشل آڈٹ کروانے کا حکم جاری کیا گیا ہے تاکہ بدانتظامی کا مکمل جائزہ لیا جا سکے۔
- یونیورسٹی کے وکیل ریحان الدین گولڑہ کو نالائقی اور نااہلی کی بنیاد پر فوری طور پر لیگل ایڈوائزر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
- فیصلے میں شریعہ اکیڈمی، دعوہ اکیڈمی، اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ سمیت اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اہم تحقیقی و علمی اداروں کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
- یونیورسٹی کے بجٹ میں خسارے اور غیر تدریسی عملے کی بھرتیوں کی خلاف ورزیوں پر عدالت نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور مزید غیر تدریسی ملازمین کی بھرتی پر پابندی عائد کر دی۔
- عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ یونیورسٹی کے ملازمین و افسران قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں اور افسران بالا کے کسی بھی غیر قانونی حکم کی تعمیل کرنا درست نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پاکستان کی عوامی جامعات بالخصوص بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی بدانتظامی اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف ایک بڑا قدم ہے،عدالت کے احکامات سے امید کی جا رہی ہے کہ جامعات میں شفافیت، میرٹ پر تقرریاں اور طلبہ کی بہتر تعلیم کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔