جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خراج تحسین پیش کرنا ہمارا فرض ہے۔ انہوں نے جس عزم اور استقلال کے ساتھ لاقانونیت کے آگے بند باندھا، قانون کے بھگوڑوں کو بے نقاب کیا، اور ختم نبوت جیسے مقدس عنوان پر کاروبار کرنے والوں کا راستہ روکا، وہ ان کی عظمت اور انصاف پسندی کا روشن مینار ہے۔ ان کی زندگی اور اصولوں کی پاسداری ہر اس شخص کے لیے مثال ہے جو حق اور انصاف کا متلاشی ہے۔
قاضی صاحب کے فیصلے اور ان کے اصولی مؤقف نے انہیں مخصوص مفادات رکھنے والے گروہوں کا ہدف بنا دیا۔ ان کی مخالفت کرنے والوں میں ایک طرف تو وہ لوگ شامل ہیں جو اسلام کو سیاست اور پالیسی سازی میں استعمال کرنے پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دینی اخلاقیات سے ان کا اتنا بھی تعلق نہیں ہے کہ انہیں اقتدار میں حصہ مل جائے تو یہ کرپشن کی غضبناک کہانیاں پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ مافیا قاضی صاحب سے اس لیے نالاں ہے کہ انہوں نے کبھی ان کی سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہا۔ اس مافیا کے لیے لبرل اور سیکولر جج زیادہ قابل قبول ہیں کہ وہ ان کے خوف سے اسلام کے قریب بھی نہیں بھٹکتے۔
اسی طرح بلاسفیمی بزنس گروپ، جو توہین رسالت کے نام پر اپنے مذموم کاروباری مفادات کو فروغ دینے والا گروہ ہے۔جو بعض مذہبی شخصیات اور وکلا پر مشتمل ہے، یہ منظم گروہ آن لائن لوگوں کو پھنسا کر توہین پر مبنی مواد شائع کرواتا ہے اور اس کے بعد عدالتوں اور پولیس کے استعمال سے پوری کمپین بنا کر اس سے مال بناتا ہے۔ اس مافیا سے ریاستی ادارے بھی واقف ہیں مگر خائف رہتے ہیں اور اس پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس گروپ کو بھی قاضی صاحب کے فیصلوں اور ان کی بے خوفی نے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی مافیا کے ڈانڈے لینڈ مافیا کے سرغنے ملک ریاض تک جا ملتے ہیں۔
قاضی صاحب کے فیصلے اکثر ان لوگوں کو بھی ناپسند ہیں جو ریاست کے اہم اداروں میں نیچے سے اوپر تک جمہوریت کی بات کرتے نہیں تھکتے مگر اپنی جماعت میں جمہوریت کا گلا گھونٹتے ہیں۔ انتخابی نشان کی معطلی والا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔ بشمول پی ٹی آئی کون کہہ سکتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پارٹی الیکشن کروائے تھے؟ دوسروں کو گراس روٹ جمہوریت کے بھاشن دینے والے عمران خان نے اپنی جماعت میں جمہوریت کا گلا گھونٹا اور بار بار مطالبے کے باوجود الیکشن نہیں کروائے۔ جسٹس وجیہہ الدین جیسے شخص کو اس حوالے سے سائڈ لائن کر کے پامال کیاگیا۔برسوں بعد قاضی فائز عیسی نے حقائق پر مبنی فیصلہ صادر کیا تو طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا گیا۔البتہ یہ ضرور ہے کہ گیلری کو دکھانے کے خواہشمند جج صاحبان کی طرح اس فیصلے کے بعد قاضی صاحب نے بار بار وضاحتیں جاری نہیں کیں، انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت نہیں کی، جسے اس فیصلے کے اطلاق سے اختلاف تھا وہ اسے بروقت عدالت کے سامنے لانے کے بجائے گالم گلوچ میں مشغول رہااور قاضی صاحب خاموشی کے ساتھ اپنے قانونی فرائض انجام دیتے رہے۔
ایک اور مافیا جس کے مفادات کو قاضی فائر عیسیٰ نے زبردست نقصان پہنچایا وہ سپریم کورٹ سے وابستہ گدھ نما یوٹیوبرز ہیں۔ جنہیں کوئی قابلِ احترام نیوز چینل ملازمت نہیں دیتا، وہ سپریم کورٹ کے ججوں کو ڈکٹیشن دینے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ قاضی صاحب نے ان کی طرف سے پیش کیے گئے پاپولر بیانیے کو ٹھوکر مار کر رد کر دیا، جس کی وجہ سے وہ ان کا سب سے بڑا ہدف بن گئے۔
آج جسٹس قاضی فائر عیسیٰ عزت و عظمت کے ساتھ ریٹائر ہو رہے ہیں، اور ان کی یہ رخصتی اس بات کا اعلان ہے کہ اصول، حق اور انصاف ہمیشہ بالا رہیں گے۔ وقت کے ساتھ قاضی صاحب کے اصل کام اور خدمت کو تاریخ مزید نمایاں کرے گی۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر وقتی مقبولیت حاصل کرنے والے لوگوں کی تنقید وقتی ہے، لیکن جسٹس فائز عیسیٰ کا نام تاریخ کے صفحات پر حق، انصاف اور اصولوں کی پاسداری کے لیے سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا۔
دعا ہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ جہاں بھی ہوں، سلامت رہیں، خوش رہیں اور کامیابیاں ان کے قدم چومتی رہیں۔