مدرسہ، منبر، فرقہ واریت اور مذہبی سیاست، یہ سب مظاہر موجودہ شکل میں برطانوی استعمار کے تسلط سے پیدا ہونے والے تاریخی انقطاع سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ ماقبل استعمار معاشرے میں مدرسہ، وقف کے نظام سے چلتا تھا اور صرف ’’متخصص علماء’’ پیدا کرتا تھا۔ انھی کو ریاستی نظام میں قضاء وافتاء کے مناصب بھی سپرد کر دیے جاتے تھے۔ استعماری غلبے سے یہ دونوں بندوبست ختم ہو گئے اور معاشرے میں ایک بحرانی نوعیت کا انقطاع واقع ہو گیا۔ مدرسے کا ادارہ اور علماء کا طبقہ، جو پہلے اشرافیہ کی سرپرستی سے اپنا کردار جاری رکھے ہوئے تھا، نئے حالات میں اپنے اثر ورسوخ کا مرکز عوامی طبقات کو بنانے پر مجبور ہوا۔ تاہم استعمار نے اگر ایک طرف انقطاع پیدا کیا تو دوسری طرف وہ اپنے ساتھ طباعت، ابلاغ اور نقل وحرکت کے وسائل کی صورت میں نئے ’’مواقع’’ بھی لے کر آیا تھا۔ ان سے بھرپور مدد لیتے ہوئے طبقہ علماء نے اپنے اثر ورسوخ کے مرکز کو اشرافیہ سے عوام میں منتقل کر دیا۔
اوپر جن دو پلیٹ فارمز یعنی مدرسہ اور منبر کا اور دو مظاہر یعنی فرقہ واریت اور مذہبی سیاست کا ذکر ہوا، وہ اس تحول کے براہ راست نتائج ہیں۔ اس سلسلے میں منبر کی proliferation میں بنیادی کردار اہل حدیث تحریک نے اور مدرسے کی proliferation میں بنیادی کردار دیوبندی علماء نے ادا کیا اور دونوں پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں اپنی اپنی مسلکی عصبیت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اہل حدیث علماء نے جمعے کے لیے ’’مصر جامع’’ کی حنفی شرط کو چیلنج کرتے ہوئے جگہ جگہ جمعے کے خطبے شروع کیے، کیونکہ یہ ایک بہت کارآمد اور موثر پلیٹ فارم تھا۔ دیوبندی علماء نے شروع میں اس رجحان کی مزاحمت کی کوشش کی، لیکن رفتہ رفتہ انھیں بھی ہتھیار پھینک کر اس مسابقت کا حصہ بننا پڑا۔
مدرسے کے ادارے کا پھیلاو دیوبندی حکمت عملی کا بنیادی ستون رہا ہے اور اسی لیے آج مدارس کا سب سے بڑا اور موثر نیٹ ورک دیوبندی مدارس ہی کا ہے۔ اکثریتی سنی طبقہ ان دونوں میدانوں میں بعد میں ضرورتاً متحرک ہوا اور سنی بریلوی عصبیت کا بنیادی انحصار آج بھی مذہبیت کے روایتی سماجی ڈھانچے اور درگاہوں اور مزاروں وغیرہ پر ہے۔ مدارس اور منبر کا کردار ان کے مقابلے میں ثانوی ہے۔
اثر ورسوخ کا مرکز عوام کی طرف منتقل کرنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مذہبی طبقوں نے سیاسی طاقت کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا۔ قطعاً نہیں، بلکہ یہ نئی حکمت عملی دراصل سیاسی طاقت کے مراکز تک رسائی حاصل کرنے کا ہی ایک ذریعہ تھی۔ مدرسے کے پھیلاو کی حکمت عملی کی طرح اس نیٹ ورک سے حاصل ہونے والی عوامی قوت کو سیاسی قوت کی شکل دینے میں بھی دیوبندی علماء نے سبقت لی، جس سے مذہبی سیاست میں اس نمایاں مقام اور کردار کی توجیہ ہوتی ہے جو ہمیشہ دیوبندی قیادت کو حاصل رہا ہے۔
موجودہ صورت حال کے اس تاریخی پس منظر کو کسی بھی تجزیے یا کسی بھی عملی پیش رفت میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر کے مذہبی واخلاقی مواعظ سے صورت حال میں کسی بامعنی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔