بنگلہ دیش میں طلبہ کی طاقت کے زیر اثر آنے والے سیاسی انقلاب کو ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن یہ زلزلہ اب تھمنے کو نہیں آ رہا۔ کم از کم میرے لیے یہ ایک ناقابلِ تصور منظر تھا کہ میں مجیب الرحمان کے بت کو بنگالی عوام کے ہاتھوں سڑکوں پر سرنگوں دیکھوں۔ یہ منظر اتنا ہی حیران کن تھا جتنا مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ناول "اے غزال شب” میں ماسکو میں لینن کے د ھا تی مجسمو ّں کو پگھلا نے کا واقعہ، جنہیں گرجا گھروں کی صلیبیں بنانے کے لیے استعما ل کیا جا رہا تھا۔
1971 کے واقعات نے پاکستان کی عوام اور حکمر ا نو ں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ فیض صاحب کی مشہور نظم کا مصرع ہے ، جو انہوں نے ڈھاکہ سے واپسی کے بعد لکھی تھی کہ” خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد”۔ ایک معتبر بنگالی شخصیت نے جواب میں کہا تھا کہ فیض صاحب، خون کے دھبے برساتوں سے نہیں دھلا کرتے۔ لیکن آج پچاس سال بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے "رضا کا ر، رضاکار” کے نعرے لگا کر ان دھبوں کو دھو دیا ہے۔
ہر سیاست مقامی ہوتی ہے، لیکن اس کے نیچے ایک نظریاتی لہر بھی ہوتی ہے، جیسے 1971 میں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش کا بننا۔ جب پاکستان کے مطلق العنان جرنیلوں نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے روکا۔ اگر اُس وقت یحییٰ خان اور بھٹو اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ نہ بنتے اور مجیب کو وزیراعظم بننے دیتے، تو آج پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ مجیب کا سحر بنگالی عوام پر پانچ سال سے زیادہ نہیں رہنا تھا، اور پانچ ہزار کلومیٹر کے فاصلے کے باوجود، اس ملک کو متحد رکھا جا سکتا تھا۔یہ ایک بڑی غلطی تھی جس نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کو دو لخت کر دیا۔ اس نے برصغیر کے مسلمانوں کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑے۔ آج دو قومی نظریے پر تنقید کی جاتی ہے، اور پروفیسر اشتیاق احمد جیسے لوگ اپنی آسو دہ آرام گا ہو ں میں بیٹھ کر اس کوجناح کی غلطی کہتے نہیں تھکتے ۔ اشتیاق صاحب کا یہ حق ہے کہ وہ کسی بھی نظریے کی حمایت کریں، لیکن ان کی آواز میں جو شدت اور اعتما د ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اند از حکمر انی میں بہت بڑی اور فا ش غلطیاں ہوہِی ہیں۔
بنگلہ د یش کے معصوم طلبہ شاید یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کتنی بڑی تبدیلی کا راستہ ہموار کیا ہے اورمسلم نیشنل از م کے مخا لفو ں کے کتنے اہم دلائل کو دریا برد کر دیا ہے۔ اگر یہ بات اتنی سادہ ہوتی، تو اندرا گاندھی کو یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ ما ن لیا کہ 1971 کی تحریک کی طرح، آج کی تحریک بھی مقامی ہے۔ اگر عوامی لیگ نے پچھلے تین انتخابات میں اتنی دھاندلی نہ کی ہوتی، تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ لیکن اس مقامی تبدیلی کے نیچے ایک نظریاتی لہر بھی ہے۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ سیکولر عوامی لیگ کے مقابلے میں، بنگلہ دیش نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، اور دیگر طلبہ تنظیموں میں بے شمار اسلام پسند طلبہ کی امیدیں شامل ہیں۔ اور اس وقت کے سیاسی ا کٹھ میں معا شر ے کے روشن خیا ل طبقا ت جن کی نما ئند گی ڈاکٹر یونس کر رہے ہیں، ا ن کے سا تھ عوامی لیگ کے ظلم کے ہاتھوں مجبو ر دائیں بازو کے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں ۔ اس سب نے ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے جو پورے برصغیر کی سیاست کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہندوستانی میڈیا کے صف ماتم نےاس کی سیاسی کلاس کے اندراور ان کے خطے کے اندرہند وستا ن کی فارن پالیسی کے لیے بے شمار سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ بات مو دی سرکا ر کے لیے پریشانی کا امر ہو نا چا ہیے کہ ا جیت دو ل آخری تجزیے کے اندر اپنی گورنمنٹ کے لیے ایک پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے ہیں۔ پہلے کابل میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری اشرف غنی نے ہیلی کاپٹر سے بھاگ کر ختم کی اور اب حسینہ واجد نے ہیلی کاپٹر پر واپس اس روایت کو دہرا دیا۔ پھردول صا حب کو خو د غازی آباد جا کر حسینہ کو وصول کرنا پڑا۔اس سے پہلے نیپال اور ماریشس کے اندر انتخابات کے نتائج نے مودی سرکار کی کافی سبکی کی ہے۔ سری لنکا تو ہندوستان سے پہلے ہی بہت تنگ ہے۔ 21ویں صدی میں ہندوستان اپنے آپ کو جائز طور پر ایک بڑی ریاست کے طور پر تسلیم کروانا چاہتا ہے، لیکن اس کے حکمرانوں میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اپنے سے مختلف کسی بھی چھوٹے ملک کے ساتھ عزت و تکریم سے کوئی تعلقات قائم کر سکے۔ آج کل یو اے ای اور سعودی عرب میں مودی صاحب کی بہت پذیرائی ہے۔ میری خواہش ہوگی کہ مودی صاحب اماراتی اور سعودی حکمرانوں سے فارن پالیسی پر ہی کچھ سیکھ لیں اور اپنے پڑوسیوں کو وہی عزت و تکریم دیں جو بڑے ممالک چھوٹے ملکوں کو دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے اندر اگلے مہینوں میں کیا ہوگا، کسی کو معلوم نہیں لیکن بنگلہ دیش کی فعال طبقات کو سن کر یہ معلوم پڑتا ہےکہ وہ اپنے ملک کو ایک نئی ڈائریکشن دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہندوستان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی کہ وہ نئی بنگلہ دیش حکومت کو ایک بنیادپرست حکومت قرار دے اور یہ بھی کوئی عقل کی بات نہیں ہوگی کہ حسینہ واجد کے ذریعے عوامی لیگ کو ڈھا کہ پر واپس تھوپنے کی کوشش کریں۔ یہ چارسو معصوم نو جو ا ن تو محض پچھلے مہینے کی عو ا می لیگ کے ظلم و بربریت کا حصہ بنے لیکن ان تین انتخابات کے بارے میں کیا خیال ہے جو حسینہ واجد کی دھاندلی کا نشانہ بنے۔ ان چالیس لاکھ مقدمات کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپوزیشن کے کارکنوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ اور تو اور بے شمار کارکنوں کو غائب کیا گیا، مخالفین کو پھانسی دی گئی اور ایک صریح جھوٹ کو تا ر یخ کا حصہ بنا یا گیا۔ ایک ایسی تاریخ تخلیق کی گئی جس کے ذریعے بنگلہ دیش کو اپنے اسلامی ورثے سے کاٹنے کی کوشش کی گئی۔ کسی کو بھی شوق نہیں ہے کوئی اسلامی انتہا پسندوں کا ساتھ دے، لیکن مسلم ثقافت اور اپنے دین سے محبت ہر مسلمان کا حق ہے اور اس کی بنیاد کے اوپر پوری دنیا کے مسلمانوں سے رشتہ اوران سے انس و محبت ان کا ایک بنیادی حق اور ان کی دلی خواہش ہے۔ جب اس امت کے رشتوں کو ، 1400 سال کی تاریخ کو جب آپ نے ریجن میں باقی مسلمانوں کے ساتھ تعلق اور راستے کو، جدید یورپ، قومیتی تصورات کے ذریعےمعد و م کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی مصنوعی ریاستوں اور ایسےمصنوعی نظریات کا کوئی سر پیر باقی نہیں رہتا۔ جیسا کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کم از کم ظاہری طور پر بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی منظر نامے سے ہٹ گئی ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ سجیپ جوائے جو 24 سال میں ورجینیا میں آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے، نے درست ہی کہا تھا کہ میری ماں اور خا اندان کو بنگلہ دیش سے کوئی دلچسپی نہیں اور ہم. دنیا کے باقی ملکوں میں آرام سے رہیں گے جیسا کہ اس کے خاندان کے باقی لوگ رہ رہے تھے۔ لیکن پچھلے ہفتے سے غالباً ا جیت دول کے کہنے پر جوائے نے اپنی ٹون کو تبدیل کیا ہے۔ اب وہ اچھے وقت کاانتظار کر رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں کبھی نہیں مرتی لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بین الاقوامی طا قتو ں سے گٹھ جو ڑ کے بجا ئے، اپنے عوام کو ترجیح دیں اور اپنی تاریخ پر فخر کرنا سیکھیں۔ بہت د یر ہو گئی ہے لیکن ہند و ستا نی حکو مت کی فراہم کر دہ آسودہ رہا ئش گا ہ میں محتر مہ حسینہ و ا جد کو سوچنے کے مو اقع ضر ور ملیں گے۔