Author: خورشید ندیم

مصنف اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ، دانشور اور تجزیہ نگار ہیں۔

خورشید ندیم انسانی جسم میں سور کے دل کی پیوند کاری پر، جاوید احمد صاحب غامدی بڑی حد تک وہی بات کہتے دکھائی دیے جو روایتی علما کا موقف ہے۔ جاوید صاحب کی تعریف میں رطب اللسان، بہت سے روشن خیالوں کو اس پر حیرت ہوئی۔ ان کا تبصرہ تھا کہ اندر سے یہ بھی مولوی نکلے۔مذہبی روشن خیالی، کیا اس کا نام ہے کہ ہر نئے خیال یا امکان کے لیے مذہبی متون سے دلیل تلاش کی جائے؟ بہت سے لوگ ان علما اور سکالرز ہی کو روشن خیال مانتے ہیں جو ہر نئی بات کو مذہبی دلیل فراہم…

خورشید ندیم چالیس برس کے غور و فکر کا حاصل ‘اجتہاد‘ کے عنوان سے میرے سامنے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علم و فکر کا ایسا مظہر چالیس سالہ ریاضت کے بعد ہی وجود میں آ سکتا ہے۔سوچ بچار کے ایک مسلسل عمل کا یہ پانچواں نقش ہے۔ پہلا نقش ‘کسی اور زمانے کا خواب‘ کے عنوان سے 2004ء میں سامنے آیا۔ دوسرا نقش اس کا انگریزی ترجمہ تھا جس کا پیش لفظ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے لکھا۔ اس فکری عمل کا تیسرا مظہر بھی انگریزی میں تھا: ‘اسلام معاصر دنیا میں: ایک نیا بیانیہ‘ (Islam in the Contemporary World…

خورشید ندیم ڈاکٹر عبدالقدیرخان پاکستان کی تاریخ کے ایک منفرد کردار ہیں۔ مقبول بھی اور متنازع بھی۔مقبول عوام میں‘متنازع حکام میں۔ ہماری تاریخ کے دو کردارایسے ہیں جنہوں نے عوامی خواب کو تعبیر میں بدلا۔ایک قائد اعظم۔جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور قائداعظم نے اسے واقعہ بنا دیا۔دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ایک خواب پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کادیکھا گیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسے تعبیردے دی۔یہ پاکستان کا قیام ہو یا ایٹمی پروگرام‘اتنے بڑے واقعات‘کسی فردِواحد کے بس میں نہیں ہوتے۔کوئی شبہ نہیں کہ یہ بہت سے رجالِ کار کی شب وروز کی محنت کا حاصل ہوتے…

آج اگر سیاست کا بھرم کسی حد تک قائم ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن کے دم سے۔وہ صفِ اوّل کے واحد سیاست دان ہیں‘ جن کی زبان میں لکنت ہے نہ لہجے میں کوئی تردد۔ جو قدرتِ اظہار ہی نہیں، جرأتِ اظہار بھی رکھتے ہیں۔ جن کے الفاظ نپے تلے ہی نہیں ہوتے، واضح اور ابہام سے بھی پاک ہوتے ہیں۔ جو تلخ سیاسی حقائق کے بیان میں مداہنت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جو حکیمِ فرزانہ ہی نہیں، پیکرِ جرأتِ رندانہ بھی ہیں۔ جن کی زبان ان کے دل کی رفیق ہے۔ ‘2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی‘ یہ…

ہمارے قومی افق پر فرقہ واریت کے بادل ایک بار پھر منڈلانے لگے ہیں۔ خدا خیر کرے! ہم نے مذہب و سیاست کی یکجائی کا مطلب خارج میں مذہب کے اظہار کو سمجھا۔ کچھ قوانین منظور کرکے یہ خیال کیا کہ اب سیاست مسلمان ہو گئی ہے۔ سیاستدان وہی رہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ چنگیز خان ایک فرد کا نام تھا، کسی نظام کا نہیں۔ سیاست میں چنگیزی اسی وقت آتی ہے جب سیاستدان اپنے اخلاقی وجود کی تطہیرسے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ ہم نے سمجھا چنگیزی کوئی نظام ہوتا ہے۔ یوں سیاست کیلئے متبادل ‘نظام، تلاش کرتے رہے۔ ‘چنگیز…