آج اگر سیاست کا بھرم کسی حد تک قائم ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن کے دم سے۔وہ صفِ اوّل کے واحد سیاست دان ہیں‘ جن کی زبان میں لکنت ہے نہ لہجے میں کوئی تردد۔ جو قدرتِ اظہار ہی نہیں، جرأتِ اظہار بھی رکھتے ہیں۔ جن کے الفاظ نپے تلے ہی نہیں ہوتے، واضح اور ابہام سے بھی پاک ہوتے ہیں۔ جو تلخ سیاسی حقائق کے بیان میں مداہنت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جو حکیمِ فرزانہ ہی نہیں، پیکرِ جرأتِ رندانہ بھی ہیں۔ جن کی زبان ان کے دل کی رفیق ہے۔
‘2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی‘ یہ جملہ ہر سیاست دان کی نوکِ زباں پر ہے‘ مگر مولانا کے سوا کون ہے جو اس جملے کی شرح کر سکتا ہے؟ کون ہے جو اِس دھاندلی کی پوری داستان سناتا اور ہر چہرے سے نقاب الٹتا ہے؟ کون ہے جو کُھرا مجرم کے گھر تک پہنچاتا ہے؟ کس میں یہ ہمت ہے کہ میدان میں نکلے اور مولانا کے اسلوب میں کلام کرے؟ ایک جاوید ہاشمی ہیں جو مولانا کے مثیل ہیں۔ انہی کی طرح واضح اور دوٹوک۔ ہر خوف سے آزاد۔ افسوس کہ خود نون لیگ میں ان کی پذیرائی نہیں۔
محترم شہباز شریف کیوں نہیں بولتے؟ لگتا ہے منہ میں گھنگنیاں ڈال رکھی ہیں۔ ہر جملہ مبہم۔ ہر بات ادھوری۔ دل اور زبان میں میلوں کا فاصلہ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بندگی میں کوئی بھلا نہیں، نمرود کی خدائی سے امیدیں استوار ہیں۔ نہ جرأتِ اظہار نہ گرمئی گفتار۔ اس قوم کو حسرت ہی رہی کہ کبھی ان کی زبان سے 2018ء کے انتخابات کی داستان سنے۔ بس یہی بتا سکے کہ قبل از انتخابات، ان کے ساتھ مل کر کابینہ بھی تشکیل دے دی گئی تھی۔
اُس وقت تو انتہا ہوگئی جب نون لیگ اپنی ہی ٹکسال میں ڈھلی اصطلاحوں سے لاتعلق ہو گئی۔ سوال ہوا ‘خلائی مخلوق کون سی ہے‘؟ جواب ملا: ہم تو واقف نہیں‘ یہ خلا میں کہیں ہو تو ہو، زمین پر کہیں نہیں‘ یہاں تو اہلِ زمین بستے ہیں۔ ایک فدویانہ اسلوبِ سیاست۔ جن کے مقاصد جلیل ہوں، ان کا لہجہ فدویانہ نہیں، قلندرانہ ہوتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ جرأتِ رندانہ کی ایک قیمت ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ وہ قیمت ادا کی جا چکی۔ اس کے بعد بھی جرأت ارزاں نہیں ہوئی۔ زندگی کے چند گنی چنی ساعتوں کے سوا، آخر کھونے کوکیا بچاہے؟ حمزہ شریف جیل میں ہیں۔ شیخ رشید مسلسل منادی کررہے ہیں کہ عنقریب باپ بیٹا مل کر پسِ زنداں آہ و زاری کریں گے۔ احد چیمہ کے خلاف مقدمات خود نیب نے واپس لے لیے، یوں وہ پھندہ ہی ٹوٹ گیا جو شہباز شریف صاحب کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس کے باوصف مشکلات کم نہیں ہو رہیں۔ سیاست کا اسلوب لیکن اب بھی وہی ہے۔
پھر یہ کہ مشکلات کیا مولانا فضل الرحمن کے لیے نہیں ہیں؟ ان پر تین خود کش حملے ہو چکے جب انہوں نے اہلِ دیوبند کو انتہاپسندی کی آگ میں گرنے سے بچانا چاہا۔ کیا زندگی انہیں پیاری نہیں؟ کیا دوسروں پر اس ملک کا کوئی قرض نہیں؟ کیا جمہوریت کی بحالی صرف مولانا کی ذمہ داری ہے؟ کیا محض نعرہ بلند کرنے سے ووٹ کو عزت مل جاتی ہے؟مولانا اور دیگر اہلِ سیاست میں یہ فرق کیوں ہے؟
یہ فرق پس منظر کا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک تاریخ کے وارث ہیں۔ انہوں نے شعوری طور پر اُس تاریخ کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا۔ یہ حریت پسندی کی وہ روایت ہے جس کا انتساب شیخ الہند مولانا محمود حسن کے نام ہے۔ علمائے دیوبند نے ہندوستان کوانگریز سے آزاد کرانے کے لیے طویل جنگ لڑی۔ اس نے کبھی تحریکِ ہجرت کی صورت اختیار کی اور کبھی ریشمی رومال کی۔ اس میں مالٹا کی اسیری بھی ہے اور جمعیت علمائے ہند کے محاذ سے سیاسی جدوجہد بھی۔
دیوبند، علمی سے زیادہ، ایک سیاسی روایت ہے۔ مولانا کا کہنا بھی یہی ہے۔ وہ اس سیاسی روایت کے وارث ہیں۔ یوں حریت پسندی ان کے خون میں ہے۔ مولانا اپنی شرائط پر تعاون کرسکتے ہیں‘ مگر کسی کی غلامی نہیں کر سکتے۔ اس روایت کے ساتھ شعوری وابستگی نے ان میں سیاسی حکمت بھی پیدا کی۔ یہ پس منظر اس وقت کم ہی کسی سیاستدان کو میسر ہے۔ کوئی حادثاتی سیاستدان ہے اور کوئی ‘کراماتی‘۔ کسی کو ایک حادثے نے سیاست دان بنا دیا اور کسی کو ‘صاحبِ نظر‘ کی کرامت نے۔ مولانا کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اسی سبب سے ان کا سیاسی تجزیہ سب سے ممتاز اور جاندار ہوتاہے۔
مجھے اس پر بھی حیرت ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کا ڈھول بہت پیٹا گیا لیکن آج تک انہیں کوئی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ ہر سیاستدان کے خلاف مقدمات قائم ہیں مگر مولانا کے خلاف بات الزامات سے آگے نہیں جا سکی۔ عمران خان صاحب بھی ان کے بارے میں بہت سے القابات بے تکلفانہ اور بے حجابانہ طریقے سے استعمال کرتے رہے ہیں مگر مقدمہ وہ بھی نہیں بنا سکے۔ پھر جس طرح وہ مقتدر قوتوں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، اس کے بعد تو کوئی جھوٹا سچا مقدمہ بنایا جا سکتا تھا مگر یہ نہیں ہو سکا۔ اس کا مفہوم تویہی ہوسکتا ہے کہ کہنے والوں کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں۔
میری اس بات سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں مولانا کی سیاست اور تاریخ کو مثالی یا بے داغ سمجھتا ہوں۔ مجھے انکی سیاست کے بعض پہلوئوں سے شدید اختلاف ہے۔ میرا تاثر ہے کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں اور میں اس کا کوئی اخلاقی جواز کبھی نہیں تلاش کر سکا۔ موجودہ حکومت کے خلاف ‘آزادی مارچ‘ کو انہوں نے جس طرح ناموسِ رسالت کے تحفظ کا رنگ دیا، وہ نامناسب تھا۔ اسی طرح دوسروں کو یہودی ایجنٹ کہنا بھی اخلاقی پیمانے پر پورا نہیں اترتا۔ وہ جمعیت علمائے ہند کی طرح سیاست کو مذہب سے الگ نہیں کرتے۔ اس کا مذہب اور ملک کو جو نقصان ہوا ہے، وہ بھی کم نہیں۔ اِس وقت مولانا کی سیاست کا کوئی ہمہ جہتی تجزیہ مقصود نہیں۔ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ آج کے دور میں، وہ واحد سیاستدان ہیں جو واضح موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر سیاست میں کوئی روشنی ہے تو ان کے دم سے۔ یہاں ہر کوئی مصلحت کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔ ہر کوئی ‘معاملہ‘ کرناچاہتا ہے۔ نہ کوئی سیاسی موقف ہے نہ کوئی حکمتِ عملی۔ خوف زدہ اور سہمے ہوئے لوگ۔ معلوم ہوتا ہے ان کے دل اور دماغ کہیں گروی رکھ دیے گئے ہیں۔
ریاست کی ساخت کو تیزی سے بدلا جا رہا ہے۔ ہم ایک پولیس سٹیٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حکمران طبقہ چینی ماڈل کو آئیڈیلائز کر رہا ہے۔ مقامی ضروریات کے تحت اسے صدارتی نظام کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن جوہری طور پر یہ چینی ماڈل ہے جہاں صرف ایک پارٹی ہے۔ وہی عوام کی نمائندہ ہے اور وہی ریاست کی بھی۔ ریاست کاصرف ایک بیانیہ ہے۔ اس بیانیے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز سزاوار ہے کہ بند کردی جائے۔
یہ صرف مولانا فضل الرحمن ہیں جوہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہواہے اورکیا ہونے جارہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ ابھی تک تنہا ہیں۔ پیپلزپارٹی میں رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر جیسے چند افراد ہیں جنہیں معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہے۔ نون لیگ میں شاید پرویز رشید اور مشاہداللہ خان۔ پرویز رشید خاموش ہیں اور مشاہداللہ خان سینیٹ تک محدود۔
کل نوازشریف تنہا تھے اور آج مولانا فضل الرحمن۔ اگر وہ اسی طرح تنہا رہے تو تاریخ کی عدالت میں سرخرو ہو جائیں گے مگر نون لیگ کو خاص طورپر سوچنا ہوگا کہ مؤرخ اس کے بارے میں کیا لکھے گا۔ وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی تنہائی، کہیں ہماری تاریخ کے کسی افسوسناک باب کا عنوان نہ بن جائے۔