اس حقیقت کے باوجود کے وہاں باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں، ایران کو ایک پولیس سٹیٹ سمجھا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔ وہاں انتخابات میں صرف وہی امیدوار حصہ لے سکتے ہیں جن کی مذہبی قیادت نے توثیق کی ہو۔ اس لیے ایران کی مذہبی قیادت وہاں کے انتخابی نظام اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمان اور حکومت سے زیادہ طاقت ور ہے۔ وہ عوام کے اکثریتی فیصلے مسترد کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے اور اپنے فیصلے طاقت کے زور پر مسلط بھی کروا سکتی ہے۔
اسی طرح انہیں ہماری طرح انتخابات کے دن ووٹوں سے کھیلنے یا محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر ملک کے معاشی حالات اچھے ہوں تو طاقت کا یہ متنازع استعمال کسی حد تک کامیاب رہتا ہے، لیکن اگر طاقت کا بے دریخ استعمال بھی جاری رہے اور معاشی مشکلات بھی بڑھ رہی ہوں تو یہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
ایران میں صورت حالات اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نہ وہاں سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی متوازن معاشی ترقی ہو رہی ہے۔ امریکہ کی عائد کردہ معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی تیل کی برآمدات تقریباً ختم ہونے کے قریب ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کے لیے شدید مالیاتی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
ایران کی اپنے ہمسایہ مشرق وسطیٰ کے ممالک خصوصاً یمن، شام، عراق اور لبنان میں سیاسی مہم جوئی اور فوجی امداد کی ایک اپنی قیمت ہے جو بیمار ایرانی معیشت کے اوپر ایک بہت بڑا بوجھ بن رہی ہے۔
موجودہ سیاسی بےچینی کی فوری وجہ تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ بنی ہے۔ ایرانی عوام ہمیشہ سے سستے تیل کے عادی رہے ہیں اور اس کی قیمتوں میں اس ناقابل برداشت اضافے نے عوام کو جو کہ پہلے سے ہی ایک مشکل سیاسی زندگی گزار رہے ہیں، شدید معاشی مشکلات سے بھی دوچار کر دیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی ردعمل کو ایرانی فیصلہ سازوں نے ایک چیلنج سمجھتے ہوئے اس سے طاقت کے ذریعے نمٹنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں اموات کی خبریں آئی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق تقریباً 200 مصدقہ اموات ہیں جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق تقریباً 400 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔ ایک چھوٹے سے شہر معاشر جس کی آبادی تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، اس میں 18 نومبر کو تقریباً سو اموات ہوئیں۔ جو اعداد و شمار اب تک مل سکے ہیں ان کے مطابق مارے جانے والوں میں زیادہ تر بےروزگار نوجوان تھے جن کی عمریں 19 سے 26 سال کے درمیان تھیں۔ توقع کے عین مطابق ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے ان تمام معاملات میں مکمل چپ سادھ رکھی ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے مارچ 2020 میں شروع ہونے والے مالی سال کا بجٹ تہران میں پارلیمان میں آٹھ دسمبر 2019 کو پیش کرتے ہوئے اسے ’مزاحمت کا بجٹ‘ قرار دیا تھا۔ (اے ایف پی)
احتجاج کرنے والوں کے ساتھ چار دنوں میں اس طرح کا تشدد ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پہلی دفعہ دیکھا گیا ہے۔ پچھلی دفعہ اسی طرح کے واقعات 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد دیکھنے میں آئے تھے جس میں تقریباً 10 ماہ کے دوران 72 اموات دیکھنے میں آئیں۔ احتجاج کو پھیلنے سے روکنے کے لیے پہلی دفعہ ایران میں انٹرنیٹ ایک ہفتے کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
معلومات، تصاویر اور فلمیں انٹرنیٹ کے کھلنے کے بعد آہستہ آہستہ منظرعام پر آنے لگی ہیں۔ اب یہ بھی ظاہر ہونے لگا ہے کہ اس احتجاج کی لہر جغرافیائی طور پر کافی وسیع ہے اور صرف معاشی مشکلات ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہیں۔ ایرانی عوام کی موجودہ نظام حکومت پر بےاطمینانی اور غصہ بھی اس احتجاج کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس احتجاج کا ایک قابلِ غور پہلو یہ بھی ہے کہ یہ زیادہ تر ان علاقوں میں ہوا جہاں حکومت کے مختلف معاشی پروگراموں سے پچھلے سالوں میں قابلِ ذکر ترقی ہوئی۔ وہاں کی عوام اپنے آپ کو بااختیار محسوس کرتے ہوئے کسی بھی معاشی رعایت کو ختم یا کم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ان رعایتوں کا خاتمہ انہیں پھر غربت کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ زیادہ تر نوجوان طبقہ احتجاج کی طرف مائل ہے اور حکومت مخالف مظاہروں میں انہوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ یہی نوجوان موجودہ انتخابی نظام سے بھی نالاں ہیں۔ جن علاقوں میں احتجاج زیادہ شدت سے ہوا ہے ان علاقوں میں پچھلے انتخابات میں شرح ووٹ بھی کافی کم رہی تھی جو کہ انتخابی نظام سے مایوسی اور بددلی کا اظہار ہے۔
ایران میں موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی ایک اہم وجہ امریکہ کی سخت معاشی پابندیاں بھی ہیں جسے صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ امریکہ کی اس پالیسی کی وجہ سے اگر احتجاج میں مزید شدت آتی ہے تو شاید ایران صدر ٹرمپ کی خواہش کے مطابق مختلف باہمی تنازعات پر دوبارہ بات چیت کے لیے تیار ہو جائے تاکہ اقتصادی پابندیوں میں تخفیف اور معاشی مشکلات میں کمی آ سکے۔
لیکن یہ فیصلہ ایرانی قیادت کے لیے کافی مشکل ہوگا کیونکہ امریکہ کے سامنے کسی قسم کی کمزوری ان کی اقتدار پر گرفت مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف ایران پر دباؤ مزید بڑھانے کے لیے امریکی وزیر خارجہ نے اعلان کر دیا ہے کہ امریکہ اس احتجاج کی حمایت کرتا ہے اور پوری کوشش کرے گا کہ احتجاج کرنے والے آپس میں رابطے میں رہیں اور ان کو انٹرنیٹ کی سہولت بھی مہیا رہے۔
ان منفی اثرات سے بچنے اور اپنا اقتدار بچانے کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ ایرانی قیادت احتجاج کرنے والوں سے اور سختی کے ساتھ نمٹے اور 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات کا اس امید میں انتظار کرے کہ شاید صدر ٹرمپ یہ انتخاب ہار جائیں اور نیا صدر پرانا نیوکلیئر معاہدہ بحال کر دے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی برقرار رہے گا کہ اگر ایرانی عوام کے معاشی حالات میں کوئی بہتری نہیں آتی تو صورت حال ایرانی قیادت کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔
موجودہ حالات میں یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ ایرانی قیادت کے پاس بہت کم راستے بچے ہیں اور اسے اپنی موجودہ پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ مندرجہ ذیل اقدامات قلیل عرصے کے لیے شاید ان مشکلات میں کمی لا سکتے ہیں۔
1۔ سیاسی پابندیوں میں کچھ نرمی شاید موجودہ غصے میں کمی لائے۔ یہ تبدیلی کچھ دیر کے لیے ایرانی عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کر سکتی ہے اور حکمرانوں کو سانس لینے کی مہلت مل سکتی ہے۔
2۔ اس وقت علاقے میں ایران کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ ایران کو اپنے ہمسایوں کے تحفظات پر توجہ دینے کے علاوہ علاقے میں اپنےحربی اخراجات میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ اس قدم سے خطے میں کشیدگی میں بھی کمی آئے گی اور ایران پر اقتصادی بوجھ بھی کم ہوگا۔
3۔ ایک حکمت عملی کے تحت ایران کو امریکہ سے باہمی تنازعات پر دوبارہ بات کرنے کا اشارہ دینا چاہیے اور اسے طول دیتے ہوئے امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔
ایرانی عوام کے ردعمل میں ہمارے لیے بھی کئی سبق چھپے ہوئے ہیں۔ ہمارے وزرا جس طرح بڑھتے ہوئے افراط زر اور اس کے عوام کے معیار زندگی پر بھیانک اثرات کو غیرسنجیدگی سے لے رہے ہیں اس کا کوئی ناخوش گوار نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔
سیاسی حکمرانوں اور حکومتی عہدہ داروں کو ایرانی عوامی احتجاج کے عوامل کا بغور مطالعہ کرکے ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایوب خان کی مضبوط ترین حکومت کا خاتمہ سیاسی مسائل کے علاوہ خوردونوش کی اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے ہوا تھا۔