یومِ اقبال کے موقع پر نیشنل رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کے زیر اہتمام ایک فکری سیمینار بعنوان "اقبال کا فہمِ اسلام” منعقد ہوا۔ اس تقریب کے کلیدی مقرر معروف اسکالر ڈاکٹر خالد مسعود تھے، جنہوں نے اقبال کے فکری ورثے اور ان کی اسلامی فکر پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے جدیدیت کے پس منظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصور صرف مغرب تک محدود نہیں تھا بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک ہمہ گیر تحریک تھا۔ تاہم، نوآبادیاتی دور میں جدیدیت کو مغرب کے ساتھ خاص کر دیا گیا، حالانکہ اس کی اصل نوعیت عالمی تھی۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ روایتی اسلامی تعلیمی نظام ایک جامع اور ہمہ گیر روایت کا حامل تھا، لیکن جدیدیت نے اس روایت میں تقسیم پیدا کی۔ یہی تقسیم اقبال کی شخصیت کے ساتھ بھی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں مختلف حلقے اپنے نظریاتی زاویوں سے اقبال کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے شرکاء کو ترغیب دی کہ وہ غور کریں کہ کون سا اقبال ان کا اقبال ہے۔
اقبال کی اہمیت اس حقیقت میں مضمر ہے کہ انہوں نے اسلامی علمی روایت اور مغربی فکر دونوں سے استفادہ کیا۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو ان دونوں علمی دھاروں کو تنقیدی نظر سے دیکھ کر ایک جامع نقطہ نظر کے ساتھ سامنے آئے۔ ڈاکٹر مسعود نے اس عام خیال کی نفی کی کہ اقبال کی نثر اور شاعری ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کے مطابق، اقبال کے مشہور خطبات، جو The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے عنوان سے 1931 میں شائع ہوئے، علم، مذہب، اور جدیدیت کے تعلق کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔
اقبال کے فکری ڈھانچے کا مرکز خودی کا تصور ہے، جو روحانی اور فکری آزادی کا مظہر ہے۔ اقبال کے مطابق، اسلام کی تعلیمات روح اور مادے کے درمیان کسی تضاد کی حمایت نہیں کرتیں؛ یہ تفریق اسلامی فکر کا حصہ نہیں بلکہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر مسعود نے اقبال کی اس بات پر زور دیا کہ ماضی کے ساتھ رشتہ توڑنے کے بجائے اسے تنقیدی نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔ اقبال نے جدید علم کو غیر جانبداری اور احترام کے ساتھ پرکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور ساتھ ہی اپنے علمی ورثے کی تنقیدی جانچ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔
اجتہاد کے حوالے سے اقبال فرد اور معاشرے کے تعلق کو تسلسل اور تبدیلی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تقلید کا مقصد علمی تنوع کو محفوظ رکھنا ہے، نہ کہ جمود کو پروان چڑھانا۔
اقبال کے نزدیک اسلامی فکر میں استقرائی منطق (inductive reasoning) قرآن کے مطالعے سے ابھرتی ہے، جس پر امام شاطبی جیسے علماء نے بھی قابلِ ذکر کام کیا۔ اقبال کے مطابق، رسول اللہ ﷺ کا دور قدیم اور جدید زمانے کے درمیان ایک سنگِ میل تھا، جہاں وحی قدیم سے جڑی ہوئی تھی لیکن جدید دور کے لیے فکری بنیاد بھی فراہم کرتی تھی۔
اقبال کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کا پیغام فرد اور معاشرے دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کی اصل حیثیت اس کی روحانی زندگی میں مضمر ہے، نہ کہ صرف اس کی سیاسی یا سماجی حیثیت میں۔ اقبال ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ جدید علم کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنی علمی روایات کا تنقیدی جائزہ لینا بھی ضروری ہے، تاکہ روایت اور جدت کے درمیان ایک متوازن رویہ اپنایا جا سکے۔