عدالت عالیہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ (Crl. Misc. No.5151/B/2023)میرے سامنے ہے، جس میں ایک عبادت گاہ (بیت الذکر)ے بارے میں کیس زیر بحث تھا جس کا مینار 1922 میں تعمیر کیا گیا تھا، اور اس پر 2022 میں اعتراض کیا گیا۔ شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا کہ اس مینار کا طرز تعمیر مسلمانوں کی مساجد سے مشابہت رکھتا ہے، جو ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے۔ اس کے برعکس، احمدیوں (جو اس عبادت گاہ کے موجودہ نگران ہیں) نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ عمارت 1984 میں نافذ ہونے والے امتناع آرڈیننس سے پہلے تعمیر ہوئی تھی، جس کے تحت احمدیوں کو اپنی عبادت گاہوں کو مساجد جیسا بنانے یا دکھانے سے منع کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ جب عبادت گاہ بنائی گئی تھی، تو یہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں تھی، اور وہ اب بھی کسی نئے جرم کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔
عدالت نے "مسلسل جرم” (Continuing Offence) کے تصور کو تفصیل سے بیان کیا اور وضاحت کی کہ کوئی جرم مسلسل تب ہی شمار کیا جا سکتا ہے جب وہ عمل مسلسل جاری رہے۔ تاہم، اگر کوئی جرم یا فعل ایک بار مکمل ہو جائے اور اس کے بعد صرف اس کے نتائج جاری رہیں، تو اسے مسلسل جرم نہیں کہا جا سکتا۔ چونکہ اس کیس میں عبادت گاہ کا مینار 1922 میں بنایا گیا تھا اور اس کے بعد کسی نئے عمل کی نشاندہی نہیں کی گئی، اس لیے عدالت نے قرار دیا کہ یہاں مسلسل جرم کا اطلاق نہیں ہوتا۔
عدالت نے مزید کہا کہ جب یہ عبادت گاہ تعمیر کی گئی تھی، تو اس کا طرز تعمیر کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر اسے Strict Liability Offences (ایسا جرم جو عوامی بہبود کو معرض خطر میں ڈالتا ہو)کے طور پر بھی سمجھا جائے، تب بھی شکایت کنندہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ملزمان نے کوئی ایسا عمل کیا ہے جس سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے طاہر نقاش بنام سٹیٹ کیس کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں جسٹس منصور علی شاہ لکھتے ہیں:
Article 260(3) of the Constitution, though declares the Ahmadis/Qadianis as non-Muslim, it neither disowns them as citizens of Pakistan nor deprives them of their entitlement to the fundamental rights guaranteed under the Constitution. The Constitution treats, safeguards and protects all its citizens equally, whether they are Muslims or non-Muslims. Article 4 of the Constitution is an inalienable right of every citizen, including minority citizens of Pakistan, which guarantees the right to enjoy the protection of law and to be treated in accordance with law
یعنی اگرچہ احمدیوں کوآئین کےآرٹیکل 260(3) میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، تاہم انہیں پاکستان کے شہری ہونے کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، اور آئین کے تحت انہیں وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو ہر پاکستانی شہری کو حاصل ہیں۔ آئین ہر شہری، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، کو یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔
عدالت نے ان وجوہات کی بنا پر ملزم کو ضمانت قبل از گرفتاری دے دی۔
اب سوال یہ ہے کہ ختم نبوت کے نام پر کام کرنے والی مذہبی، سیاسی، اور نام نہاد سماجی تنظیموں اور ان کے مشہور وکیلوں میں سے کسی کی نظر اس فیصلے پر پڑی؟ اگر پڑی، تو ان کا کیا ردعمل تھا؟ کیا انہوں نے اس کے خلاف کوئی اپیل دائر کی؟ کیا کوئی احتجاج ہوا؟ کوئی دھرنا دیا گیا؟ یا لاہور ہائی کورٹ کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی گئی؟ یا یہ سب اقدامات صرف ایک شخص، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہی کیے گئے تھے تاکہ اپنی مرضی کے سیاسی مفادات حاصل کیے جا سکیں؟
اگر آپ کی نظر صرف سپریم کورٹ پر رہتی ہے اور باقی عدلیہ کے ججز کی نگرانی آپ کے بس سے باہر ہے تو سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ، جو اگلے چند دنوں میں چیف جسٹس بننے کے خواہش مند ہیں، کے فیصلوں کو نظر انداز کرکے آپ نے صرف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف محاذ کیوں گرم کیا۔؟
اس دوران بلاسفیمی بزنس گروپ کے نام سے وکلاء و چند مذہبی جماعتوں کے کارکنان کا جو گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے ،انہوں نے آج تک کسی پلیٹ فارم یا تحریر میں اس فیصلے یا جسٹس منصور علی شاہ کے لکھے گئے طاہر نقاش کیس کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا ہے؟
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس مقدس نام سے جڑے افراد اکثروبیشتر انگریزی زبان سے نابلد ہیں ، اسی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عوامی مفاد کے کیسوں کو نشرکروانے اور ایسے فیصلے اردو میں لکھوانا شروع کیے، تاکہ عام آدمی عدالت کی کارروائی اور فیصلے سے مستفید ہوسکے،لیکن یہاں ان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ ایسے فیصلے جو انگریزی میں لکھے جاتے ہیں، ان میں کیا لکھا گیا ، اس کا کسی کو ادراک نہیں ہے ،کیونکہ ان فیصلوں کو کبھی موضوع بحث نہیں بنایا گیا۔ طاہر نقاش کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے جو کچھ لکھا، کیا کامران مرتضیٰ(وکیل جمعیت علماء اسلام وختم نبوت) سمیت ختم نبوت اور جمعیت علماء اسلام کے کسی دوسرے وکیل نے اس کا مطالعہ کیا؟ اگر کیا، تو پھر مجرمانہ خاموشی کیسی؟ اور اگر مطالعہ ہی نہیں کیا تو اس سے بڑا قومی جرم اور کیا ہو سکتا ہے؟
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج طارق سلیم شیخ اور طاہر نقاش کیس میں فیصلہ دینے والے جسٹس منصور علی شاہ کے خلاف ہمارے ان مہربانوں نے کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہا، مگر قاضی فائز عیسیٰ کو بوجوہ نشانہ بنایا گیا؟ قاضی فائز عیسیٰ کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے عوامی مفاد میں فیصلے اردو میں لکھوائے اور ختم نبوت جیسے مقدس نام پر اقلیتوں کے ساتھ کھیلے جانے والے اس کھیل کو روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں وطن عزیز کے عام افراد کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ مسلم روایت، بالخصوص دور نبوی میں، غیر مسلموں کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دور نبوی کے کلمہ گو غیر مسلم شہریوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا تھا۔
مذہبی طبقہ چونکہ یہ سمجھتا ہے کہ قرآن و حدیث سے متعلق تمام باتوں کو سمجھنے یا سمجھانے کا اختیار صرف ان کے پاس ہے۔ کسی اور کو، حتیٰ کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی، اس اختیار کے استعمال کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا، مذہبی جتھے ان کے خلاف مذموم مہم چلا کر ان کی زندگی کو خطرات میں ڈالتے ہیں اور مذہبی وسیاسی جماعتوں کے قائدین اس ساری مہم جوئی سے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔