حکومت اور پریس کے درمیان تعلقات برسوں سے ہمیشہ ہی تلخ اور کشیدہ رہے ہیں جس میں موخر الذکر نے حریف کا کردار ادا کیا ۔ حکمرانوں کو ایسا رویہ پسند نہیں رہا۔ موجودہ حکومت بھی میڈیا سے نمٹنے اور اسے قابو میں رکھنے کے لئے ماضٰی سے کوئی مختلف نہیں ہے۔
نئے وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ کو بڑے چیلنج کا سامنا ہو گا جنہیں میڈیا اور اپوزیشن دونوں سے مسائل درپیش ہیں۔ لیکن ان کا کے لئے سب سے بڑا چیلنج وزیر اعظم کا میڈیا کے بارے میں تاثر بدلنا ہو گا۔
گزشتہ حکومتوں نے اکثر َ گاجر اور چھڑی ساتھ ساتھ َ کی دو جہتی پالیسی اختیار کی، لہٰذا وزارت اطلاعات میں کون وزیر اور مشیر آتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک ریاست معاشرے میں میڈیا کے کردار کو سمجھ کر اسے قبول نہیں کر تی، سزا دینا مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ گاجر تو اس کے لئے رکھی ہوتی ہے جو غلط کاریوں کو چھپاتا، خوشامد اور تعریفوں پر آمادہ ہوتا ہے اور چھڑی اپنی خبروں اور تجزیوں میں آزادانہ پوزیشن اختیار کرنے والوں کے لئے ہو تی ہے۔
حکومت وقت نے سیاہ قوانین کے ذریعہ تنقید میں اٹھنے والی آوازوں کو دبایا اور سرکاری اشتہارات کو ہتھیار کے طور پراستعمال کیا۔ سابق صدر ایوب خان کے دور سے یہ پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔ اب اگر وزیر اعظم عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ حالات حاضرہ کے پروگرام عوام سے غیر متعلق ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ یہ پروگرام نہ دیکھیں اور میڈیا پر خود ساٹہ شوز کے اہتمام کا الزام عائد کیا ۔بڑے میڈیا ہائوسز مورد الزام ٹھہرایا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وزارت اطلاعات میں مذکورہ تبدیلیوں کے حکومتی تاثر اور وزیر اعظم کے میڈیا سے رویہ پر کیا اثرات مرتب ہو تے ہیں؟
پاکستان کا میڈیا اس وقت اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا اور مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ کچھ ٹی وی چینلز پہلے ہی بند ہوچکے ہیں ،اخبارات نے اپنے بعض ایڈیشن معطل کر دئے اور پانچ ہزار میڈیا ملازمین اپنے روز گار سے محروم کر دئے گئے ہیں ۔ جو کام کر رہے ہیں انہیں بھی وقت پر تنخواہیں نہیں مل رہیں بحران گہرا ہو تا جا رہا ہے حکومت نے چھہ ارب روپے کے بقایاجات روکے ہوئے ہیں بلکہ سرکاری اشتہارات اور ان کے نرخ بھی کم کر دئے گئے۔
ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے بھی اپنے نقاد میڈیا کے خلاف ایسے ہی حربے اختیار کئے تھے۔اگر آج عمران خان اینکرز اور ان کےٹاک شوز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو سابق صدر آصف علی زرداری نے تو اینکرز کو سیاسی اداکار قرار دیا تھا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی ان کے بازو مروڑے تھے اگر وزیر اعظم نے اپنی پالیسی جاری رکھی تو انہیں اپنے حامی سے زیادہ مخالف میڈیا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہفتہ بھر قبل سوشل میڈیا ٹیم سے اپنی گفتگو میں وزیر اعظم نے میڈیا کو ہدف بناتے ہوئے انہوں نے ان پرماضی میں خود ساختہ شوز کر نے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ پیسہ بھی استعمال ہوا ہے۔ ملک کے دو صف اول کے میڈیا ہائوسز جیو،جنگ اور ڈان کے ساتھ جو کچھ ہوا اور وزیر اعظم کا ان کے بارے میں موقف وہ کوئی راز نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی تقسیم میں خلل ڈالا گیا۔ جیو اور جنگ حملوں کی زد میں رہے اور با لآخر 45 روز قبل ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمان کو 1986 کے پلاٹ کیس میں نیب نے گرفتار کرلیا ،ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی گئی اور ہنوز کوئی ریفرنس بھی دائر نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ پیمرا اور دیگر ذرائع سے جیو کے نمبر تبدیل کئے جاتے رہے اور عدالتی حکم پر ہی جیو کو اپنے اصل نمبر پر بحال کیا گیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دو اہل افراد شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کیا تبدیلی لا تے ہیں۔
سرکاری ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ایجنسی کو چلا نے میں کیا تبدیلیاں لا ئی جا تی ہیں؟ تاکہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں نجی ٹی وی اورایف ایم ریڈیوز کا مقابلہ کر سکیں۔ جب عمراں خان اپوزیشن میں تھے ان کے بھی میڈیا کے بارے میں ایسے ہی خیالات تھے لیکن وہ بھی اپنے پیش روئوں کی طرح تبدیلی لا نے میں ناکام رہے۔ ان کی میڈیا ٹیم میں سول اور فوجی ادوار حکومت میں خدمات انجام دی نے والے شامل ہیں۔ ان کی زیادہ تر پالیسیاں اپنے باس کو تنقیدی جائزہ پیش کر نے کے بجائے انہیں خوش کر نے پر مرکوز رہی ہیں۔
کوئی عجب نہیں حکومت کے میڈیا سے تعلقات کیوں بہتر نہیں ہوسکے اور نتیجتاَ وزیر اعظم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ یکے بعد دیگرے تبدیلیاں لا ئیں جو مزید زوالکا باعث بنی ہیں ۔ اس تبدیلی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن اور میڈیا نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے اور میڈیا حکومت تعلقات کی بہتری کے لئے اس تبدیلی سے کس قدر استفادہ کیا جا تا ہے ، یہ حقیقی آزمائش ہوگی۔ لیکن ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنے باس کو رویہ اور تاثر میں تبدیلی لا نا ہوگا۔
جب تک وزیر اعظم عمران خان از خود میڈیا کے بارے میں اپنا بیانیہ تبدیل نہیں کر تے، ان کی میڈیا ٹیم اپنے تئیں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکتی۔ شبلی اور عاصم باجوہ کے لئے آزمائش یہی ہے کہ وہ عمران کان کو ذاتی موقف سے اجتناب کا باور کرائیں۔ اگر خواہش یا عزم ہو تو راستہ بھی نکل آتا ہے لہٓذا میڈیا کی نئی دنیا میں شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کا خیر مقدم کیا جائے۔