عامرعبداللہ
ہم زندگی کے جس شعبہ میں بھی ہوں اپنی حدود خود متعین کرتے ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے گرد ایک دائرہ کھینچیں اور اسی کی تنگی میں قید رہ کر تمام عمر گزار دیں یا اس دائرے کے امکانات کو دریافت کرنے کی مسلسل سعی کرتے رہیں اور دریافت کی اس خواہش کے بل پر دائرے کو کائنات جتنا وسیع کر لیں۔ یا دوسری صورت میں ایک دائرے کو تسخیر کر کے ایک بڑے دائرے اور پھر اس سے بھی بڑے دائرے کو مسخر کرنے کے مسلسل عمل کو زندگی کا وظیفہ بنا لیں۔شعر و ادب کی دنیا بھی دریافت کے عمل سے عبارت ہے۔ جو تخلیق کار نئے امکانات کی تلاش میں رہتا ہے اس کے گرد نئے افق روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حیات و کائنات کے انوکھے اسرار اس کے لیے سینہ کشادہ کر لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ادبی وجود کی شناخت کے لیے ایسی را ہیں تلاش کر لیتا ہے جو دوسرے لکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں۔
ادبی وجود کی شناخت کے لیے ایسی ہی ایک دنیا وہ عالمی ادبی دنیا ہے جو سوشل میڈیا پر موجود ہے اور اس میں پوری دنیا کے شاعر اور ادیب انگریزی کو ذریعہ اظہار بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا بہ طور عالمی ادبی پلیٹ فارم نہ صرف تخلیق کاروں کو عالمی پہچان عطا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے بل کہ وہ اقوام جو سوشل میڈیا کی قوت سے پوری طرح واقف ہیں اور ادب کو اپنی ثقافت کی ترویج کا ذریعہ بنانے کا ہنر جانتی ہیں وہ اس پلیٹ فارم کو نہایت عقلمندی سے استعمال کر رہی ہیں اور نہ صرف عالمی ادبی دنیا میں اپنے ملک و قوم کی خوبصورت تصویر کشی کر نے میں کامیاب ہیں بل کہ بہت سے معاشی فوائد بھی حاصل کر رہی ہیں۔
اس ضمن میں پڑوسی ملک بھارت کے ادیب اور شاعر سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ متعدد ویب زینز، ای زینز، بلاگز، ادبی گروپ اور عالمی شعری و نثری انتھالوجیز کی اشاعت کے پیچھے بھارتی ادیب دکھائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دیگر ممالک سے شایع ہونے والے ادبی رسائل اور انتھا لوجیز میں بھی سب سے بڑا حصہ بھارتی تخلیق کاروں کا ہی ہوتا ہے۔ دیگر ممالک بالخصوص مغربی ممالک کے ادبا اور ادبی تنظیموں کے ساتھ مل کر بھی بہت سے مشترکہ ادبی پر وجیکٹوں پر بھی بھارتی ادیب ہی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایمان دارانہ تجزیہ کیا جائے تو بھارتی ادیب پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مذکورہ میدان میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ چین، روس، وسطی ایشیائی ریاستیں اور بنگلہ دیش بھی اپنے ادب اور ادیب کو سوشل میڈیا پر پروموٹ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اور نئے ادبی رشتے استوار کرنے اور عالمی ادبی منظر نامہ میں اپنی پہچان مستحکم کرنے میں پوری تن دہی سے کوشاں ہیں۔ دوسری جانب افریقہ بھی پوری قوت کے ساتھ یہاں موجود ہے اور ایک بڑی تعداد میں افریقی ادیب نہ صرف ادبی طور پر اپنے وجود کا بھرپور احساس دلا رہے ہیں بل کہ اپنی علمی اور سماجی تصویر بھی دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ امید افزا بات یہ ہے کہ ان کی بات سنی جا رہی ہے۔ اور ان کا علمی و ادبی چہرہ پوری شفافیت کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ رہی بات مغرب کی تو مغرب یہاں بھی علم و ادب کے مرکز کے طور پر نمایاں ہے۔
یہ بات بھی خاص طور پر اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے عالمی منظر پر ابھرنے والے ہر ادیب کا ایک خاص مزاج ہے جو باہمی احترام، محبت اور بھائی چارے جیسے عناصر سے متشکل ہوا ہے۔ مختلف مذاہب اور معاشرتوں سے جڑے ہونے کے باوجود مقامی رشتوں سے اوپر اٹھ کر آفاقی سطح کی ہم آہنگی قائم کرنا ہر ادیب اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ادب کی ترویج کے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں اور ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ تخلیق کاروں کی رسائی ان مواقع تک ممکن بنائی جاتی ہے۔ ان سب مساعی کے نتیجے میں ایک ایسے خوب صورت ادبی سماج نے جنم لیا ہے، ہم اور آپ جس کا خواب دیکھا کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس پورے منظر نامہ میں پاکستانی ادیب کہاں کھڑا ہے؟ بدقسمتی سے مذکورہ عالمی ادبی پلیٹ فارم پر بھی ہم دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح مشترکہ لائحہ عمل کے ساتھ چلنے سے قاصر ہیں جس کی ایک وجہ تو انگریزی کو ذریعہ اظہار بنانے میں ہمارے بلا وجہ کے تحفظات ہیں اور دوئم ہمارا کمزور قومی شعور ہے۔ تاہم انفرادی طور پر کچھ ادیب متحرک ضرور ہیں اور اپنی طرف سے وطن کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کی ادبی کاوشوں کی شکل میں پاکستان کا نام دیگر ممالک کی فہرست میں دکھائی دیتا ہے جس کے لیے یہ ادیب بلا شبہ داد کے مستحق ہیں۔
ان میں سے چند نام ایسے ہیں جو اردو ادب میں بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جب کہ دیگر کا نام صرف انگریزی کے حوالے سے ہی لیا جا سکتا ہے۔ تاہم وہ سب ادیب جو عالمی ادبی دنیا اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ان میں محترم ایوب خاور، سنتیاگو علی، ساجد حسین، آسیہ مجید، حمزہ حسن شیخ، مظہر حسین عبدالغنی، امجد بابر، امان عباد خان اور راقم کے اسماء شامل ہیں۔ مذکورہ بالا ادبا کا کام دنیا بھر کے ادبی رسائل میں شائع ہو رہا ہے۔ ان میں سے بیش تر کی تخلیقات متعدد عالمی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور ان کی رائے کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔میری نظر میں ہمارے ادیب کو اب سنجیدگی سے عالمی ادبی دنیا کا حصہ بننے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہمارے ادبی اداروں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ دیگر اقوام کی طرح ہم بھی اپنے ادبی اور علمی شعور کو عالمی ادبی شعور کے ساتھ ہم آہنگ کر سکیں۔