اقوام متحدہ میں وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی تقاریر کا موازنہ ایک دلچسپ پہلو پیش کرتا ہے، کیونکہ دونوں رہنماؤں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات کو اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ اگر ان دونوں تقاریر کو منطقی طور پر پرکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں نے کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ مسائل پر پاکستان کی مستقل پالیسی کی عکاسی کی ہے۔ تاہم، کسی نے بھی اپنی تقریر میں کوئی نیا یا عملی اقدام پیش نہیں کیا۔
عمران خان کے دور حکومت میں آرٹیکل 370 اور 245 کے مسائل سامنے آئے، لیکن ان کے دور میں ان پر کوئی بڑا عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بی بی سی اور معروف صحافی حامد میر کی رپورٹس کے مطابق، عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ دونوں اس معاملے پر مطمئن نظر آتے تھے، کیونکہ ان کی حکومت پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہاں تھی۔ عمران خان کی حکومت نے کرتارپور راہداری کھولنے کی اجازت دی، جسے جنرل باجوہ کی طرف سے ایک اہم اقدام کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس نے کشمیر کے مسئلے پر حکومت کی پوزیشن کو کچھ مبہم کر دیا۔
عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقاریر، پرکشش شخصیت اور انگریزی پر عبور کی وجہ سے زیادہ پذیرائی ملی، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ ان کی اسلاموفوبیا کے خلاف تقریر نے مغربی ممالک میں مسلمانوں کے لیے مثبت اثرات مرتب کیے، اور ان کی عوامی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ عمران خان کے حامی، جن میں سے بیشتر نوجوان اور سیاسی طور پر ناپختہ تھے، ان کی شخصیت اور عوامی ایجنڈے کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں، جبکہ پیچیدہ سیاسی پالیسیوں اور خیالات کا تنقیدی جائزہ لینے سے گریز کرتے ہیں۔
شہباز شریف کا انداز زیادہ سنجیدہ اور پختہ نظر آتا ہے۔ ان کی تقریر میں پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو زیادہ عملی اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا گیا، خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے۔ شہباز شریف نے اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر کا بائیکاٹ کیا، اسرائیلی مصنوعات پر پابندی کی حمایت کی اور مقامی مارکیٹوں کو فروغ دینے کا ذکر کیا۔ ان کا کشمیر کے مسئلے پر مؤقف بھی زیادہ واضح اور عملی تھا، جبکہ عمران خان کی حکومت نے جنرل باجوہ کے دباؤ میں کرتارپور راہداری کھولنے کی اجازت دی۔
عالمی سطح پر دونوں رہنماؤں نے اسلام کے بارے میں بات کی، لیکن عمران خان کی تقریریں زیادہ جذباتی اور عوامی حمایت پر مبنی تھیں، جبکہ شہباز شریف کا انداز زیادہ سفارتی اور سنجیدہ تھا۔ عمران خان نے اسلاموفوبیا پر زور دیا اور مغربی دنیا میں مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کی، لیکن اندرون ملک انہوں نے اسلام کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ شہباز شریف کی تقریر میں پاکستان کے اقتصادی مسائل اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عالمی مسائل پر زیادہ زور دیا گیا، اور وہ عالمی برادری کے ساتھ تعاون کی اپیل کرتے نظر آئے۔
شہباز شریف میں وہ کشش یا سوشل میڈیا کی سمجھ بوجھ نہیں جو عمران خان میں تھی، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر نوجوانوں میں اتنی مقبول نہیں ہو سکتی۔ تاہم، ان کا ریاستی امور چلانے کا انداز زیادہ سنجیدہ اور دیرپا ہے، جبکہ عمران خان کی تقاریر میں زیادہ تر عوامی حمایت حاصل کرنے اور اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت نے مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے اور پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی سے نکالنے کی کوشش کی، جبکہ عمران خان کے دور میں مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات میں کچھ اتار چڑھاؤ کا سامنا رہا۔
دونوں رہنماؤں کا اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کا انداز اور اس کے نتائج مختلف تھے، لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ عمران خان کی تقاریر زیادہ عوامی مقبولیت پر مبنی تھیں، جبکہ شہباز شریف کی تقاریر زیادہ حقیقت پسندانہ اور عملی انداز میں پاکستان کے دیرینہ مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ عمران خان نے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے پر زور دیا، جبکہ شہباز شریف نے عالمی برادری کے ساتھ اقتصادی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان کی کرتارپور راہداری کھولنے کی پالیسی نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی، لیکن اس نے کشمیر کے مسئلے پر ان کی پوزیشن کو کمزور کر دیا۔
آخر میں، دونوں رہنماؤں کی تقاریر کا موازنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا پیشکش کا انداز اور سیاسی حکمت عملی مختلف ہو سکتی ہے، لیکن دونوں نے پاکستان کے خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات کی عکاسی کی ہے۔ عمران خان کی تقاریر جذباتی اور عوامی مقبولیت پر مبنی تھیں، جبکہ شہباز شریف کی تقاریر زیادہ سفارتی اور طویل مدتی پالیسی پر مرکوز تھیں، جس سے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل پر ایک حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔
تحریر: عبدالحق، پی ایچ ڈی سکالر قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد