15؍ برس قبل اسی روز 27؍ دسمبر کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کے فوراً بعد قتل کردیا گیا تھا جو ملک میں عام انتخابات سے قبل عوامی جلسے سے ان کا آخری انتخابی خطاب تھا۔
ان کی زندگی بھی ایسے ہی لی گئی جیسے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا تھا۔ دونوں وزرائے اعظم میں تین قدر مشترک رہیں۔ وہ دونوں وزرائے اعظم رہے، ایک ہی جگہ قتل ہوئے اور تیسرے یہ کہ ان کے قتل آج تک پراسراریت کی لپیٹ میں ہیں۔
18؍ اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی کے بعد بے نظیر کی زندگی کو مسلسل خطرات لاحق رہے وہ ا نتخابات سے قبل 18؍ اکتوبر 2007ء کو زندگی کو لاحق خطرات پر سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا انتباہ بھی نظرانداز کرکے لوٹ آئی تھیں وہ واپسی کے بعد اپنے جلوسوں پردو بڑے خودکش حملے سہہ گئیں جن میں 150؍ سے زائد افرادہلاک ہوئے، اکثریت پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی رہی، حملوں کے کچھ دنوں بعد انہوں نے متعلقہ حکام کو بھیجے گئے خط میں ان افراد کی نشاندہی کی جن پر شک کیا جاسکتا تھا۔
ان میں سابق فوجی سربراہ مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل، پرویز مشرف کے قریبی معاون بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ، اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے بعد بےنظیر بھٹو دبئی چلی گئیں اس دوران 3؍ نومبر کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی پلس نافذ کردی واپس آکر بےنظیر بھٹو نے انتخابی مہم شروع کردی۔ وہ مزید دو حملوںمیں بچ گئیں حملہ آور پکڑے گئے۔
ایک پشاور میں گر فتار ہوا ۔ وہ واردات کرنے جارہے تھے لیکن پکڑے گئے۔ 18؍اکتوبر 2007ء کے حملے کے بعد بے نظیرکی سیکورٹی ٹیم بھی تبدیل کردی گئی۔ سیکورٹی کی ذمہ داری ذوالفقار مرزا سے لے کررحمٰن ملک کو دے دی گئی۔
مہلک سانحے کے دن بے نظیرنے اس وقت کے افغان صدر حامدکرزئی سے ملاقات کی جنہوں نے خود بھی بے نظیر کو قتل کی سازش سے آگاہ کیا اس کے باوجود اپنے منصوبےپر عمل پیرا رہنے کا فیصلہ کیا۔
پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ خود ان کی ٹیم نے سیکورٹی فراہم کرنی تھی لیکن لیاقت باغ میں سیکورٹی کی ایک سنگین خلاف ورزی کی گئی جہاں داخلے اور اخراج کے گیٹس پر سیکورٹی کلیئرنہیں کی گئی جس سے حملہ آوروں کو لیاقت باغ میں داخل ہونے اور بے نظیر کی گاڑی کے قریب تک جانے کا موقع مل گیا جب وہ جلسے سے خطاب کے بعد نیچے اترنے لگیں توا ن کے دائیں اور بائیں کوئی سیکورٹی اہلکار موجود نہ تھا وہ ناہید خان، ان کے شوہر صفدرعباسی اور مخدوم امین فہیم کے ساتھ روانہ ہونے والی تھیں۔
کار میں بیٹھنے کے بعد انہوں نے ن لیگ کے رہنما نواز شریف کو ٹیلی فون کرکے ان پر فائرنگ کی بابت دریافت کیا۔ سیکورٹی کے حوالے سے یکے بعد دیگرے سنگین کوتاہیاں ہوئیں جس نے رحمٰن ملک کے سیکورٹی پلان کو کھول کر رکھ دیا۔ انہیں کار کی چھت پر نہیں آنے دیا جانا چاہئے تھا جہاں بےنظیرکو سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی جن پر گولی چلائی گئی اور وہ اسپتال پہنچنے کے بعد جاں بحق ہوگئیں۔
بعد ازاں 2008ء اور 2013ء میں پیپلزپارٹی کے دو ادوار حکومت میں تفتیش کے حوالے سے 18؍ اکتوبرکو کارسازحملے کے تناظر میں بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ واقعہ کی کلیدی شہادت بےنظیر بھٹوکا بلیک بیری فون تفتیش کاروں کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا اور دو سال تک رحمٰن ملک کی تحویل میں رہا۔ جے آئی ٹی کے رکن راؤ انوار نے کہا کہ اسی وجہ سے انہوں نے جے آئی ٹی پر دستخط نہیں کئے۔
بے نظیرکو کیوں قتل کیا گیا، اس سوال کا جواب ہنوز تشنہ طلب ہے۔ 1986ء میں پاکستان میں اقتدار کے حلقوں نے بے نظیر کو کبھی قبول نہیں کیا۔
1988ء میں دائیں بازو کا اتحاد بنا کر ان کی انتخابی کامیابی میں رکاوٹ ڈالی گئی بعد ازاں انہیں مشروط اقتدار پر متفق ہونے کے لیے آمادہ ہونا پڑا۔ 9؍ ماہ میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی گئی جو مبینہ طور پر سابق صدر غلام اسحاق خان کی ایماء پر پیش کی گئی۔ بعد ازاں بالآخر برطرف کردیا گیا۔
1990ء میں پیپلزپارٹی کے مزید پرکاٹے گئے گو کہ برسوں بعد اصغرخان کیس میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور مخالفین میں رقوم تقسیم ہوئی تھیں۔ 1993ء میں بھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو آئینی مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی ان کے ہی صدر فاروق لغاری نے انہیں وزارت عظمٰی سے فارغ کردیا ۔
بے نظیر نے خود کو بتایا تھا کہ وہ روز اول سے ان کے لیے قبول نہیں تھیں۔ ان کے خیال میں عورت کو حکومت کا سربراہ نہیں ہونا چاہئے۔ فوج میں بھی ایک طبقے کو ان کے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے پر تحفظات تھے کہیں بھٹو کی پھانسی کا بدلہ نہ لیں لیکن جنرل حمیدگل نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ بڑی محب وطن اور انتقامی جذبات کی حامل نہ تھیں۔ تحقیقات میں طالبان رہنما بیت اللہ محسود پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا جس سے بیت اللہ نے انکار کیا۔
بے نظیر کے بعد پاکستانی سیاست کے محرکات اور خود پیپلزپارٹی میں تبدیلیاں آگئیں تاہم بے نظیرکے بعد سے پیپلزپارٹی پھر سنبھل نہ سکی۔ اس کے بعد سے مصروف جدوجہد ہے۔ بے نظیر اس بات کی کلاسیکی مثال ہیں کہ محض مقبولیت اقتدار کی ضمانت نہیں ہوتی۔