پاکستان کے قبائلی علاقے کرم میں حالیہ قافلے پر حملہ، جس میں کم از کم 41 افراد جان سے گئے، ایک المناک سانحہ ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف انسانی المیے کو جنم دیا بلکہ ملک میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تنازعات اور انتظامی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ اس حملے میں زیادہ تر مرنے والے افراد کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے بتایا جا رہا ہے، جس نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ پاکستان فرقہ واریت کے عفریت کو قابو میں لانے میں کیوں ناکام رہا ہے۔
پاکستان میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مختلف سطحوں پر کوششیں کی گئیں، جن میں اہم ترین کوشش پیغام پاکستان نامی دستاویز کی تشکیل تھی۔ اس فتویٰ نما دستاویز کو 2018 میں بڑی امیدوں کے ساتھ متعارف کرایا گیا۔ اس کے تحت تمام مسالک کے علمائے کرام نے فرقہ وارانہ تشدد کو غیر اسلامی قرار دیا اور امن و ہم آہنگی کے فروغ کا عزم ظاہر کیا۔ تاہم، کروڑوں روپے کے اخراجات کے باوجود یہ دستاویز زمینی حقائق پر کوئی دیرپا اثر ڈالنے میں ناکام رہی۔
پیغام پاکستان کا مقصد شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف عوامی شعور اجاگر کرنا تھا، لیکن اس کی اثرپذیری محدود رہی۔ نہ تو اس کے نکات کو مؤثر انداز میں نافذ کیا گیا، نہ ہی مقامی تنازعات کے حل میں اس کا کردار دیکھنے کو ملا۔ حالیہ کرم حملہ اور اس علاقے میں جاری مسلسل فساد اس ناکامی کی ایک واضح مثال ہے، جہاں مذہبی و قبائلی کشیدگی کو کم کرنے میں یہ دستاویز بے بس نظر آتی ہے۔ اسی طرح ملی یکجہتی کونسل، قبائلی علاقوں میں جرگہ نظام اور قبائلی کونسلز بھی نمایاں کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ خاص طور پر ملی یکجہتی کونسل، جو 1995 میں خالصتاً فرقہ وارانہ فسادات کے خاتمے کے لیے وجود میں آئی تھی، ابتدا میں کچھ نمایاں کردار ادا کرنے کے علاوہ زیادہ تر رسمی اجلاسوں اور بیانات تک محدود رہی ہے۔ اس وقت کونسل کا کوئی ایسا مؤثر لائحہ عمل نظر نہیں آتا جو فرقہ واریت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکے۔
قبائلی کونسل اور وہاں کے جرگے روایتی طور پر تنازعات کے حل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں ان اداروں کی کمزوری اور غیر مؤثر حکمت عملیوں نے مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ جرگہ نظام نہ صرف زمین کے تنازعات حل کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ فرقہ وارانہ جھگڑوں کو روکنے میں بھی اس کا کردار غیر واضح رہا ہے۔
پارہ چنار اور کرم جیسے علاقوں میں زمین کے تنازعات اکثر فرقہ واریت کے ساتھ جڑ جاتے ہیں، جن سے مسائل کی نوعیت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ زمین کے جھگڑوں کو حل کرنے کے لیے مؤثر عدالتی اور انتظامی اقدامات ضروری ہیں، لیکن ان تنازعات کو فرقہ واریت کے تناظر میں پیش کرنا ان مسائل کو بڑھاوا دیتا ہے۔
پاکستان میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے صرف دستاویزی اور رسمی بیانات کافی نہیں۔ اس کے لیے ٹھوس، جامع، اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے:
- سب سے پہلے تو کرم حملے اور اس سال ہونے والے دیگر پرتشدد واقعات کی مکمل غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تاکہ اصل محرکات سامنے آئیں۔
- پیغام پاکستان میں شامل نکات کو عملی طور پر نافذ کیا جائے اور اس کے اثرات کی نگرانی کی جائے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو اسے بند کرکے کسی دوسرے مگر مؤثر منصوبے کو متعارف کروایا جائے۔
- قومی سطح پر بین المسالک و بین المذاہب مکالمے، تحقیق، اور باہمی آمد و رفت کو فروغ دیا جائے۔ موجودہ سرگرمیاں صرف رسمی ہیں اور ان میں بہتری کی ضرورت ہے۔
- اسلامی نظریاتی کونسل، قبائلی جرگوں، اور قبائلی کونسلز کو مضبوط بنایا جائے اور انہیں ایسے تنازعات کے حل میں مؤثر کردار اداکرنے پر امادہ کیا جائے۔
- شدت پسند تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور بیرونی مداخلت، بشمول ہندوستان، افغانستان، اور ایران کی مداخلت، کو روکنے کی حکمت عملی مزید بہتر بنائی جائے۔
ملک کے جید اور بااثر علمائے کرام، جیسے مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر، مفتی منیب الرحمن، اور علامہ ساجد علی نقوی کو اپنے گروہی تعصبات سے بالاتر ہوکر ایک نئے پلیٹ فارم سے متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مختلف مسالک کے درمیان مکالمے اور اتفاق رائے کو فروغ دیا جا سکے۔ ماضی میں ملی یکجہتی کونسل کی جزوی کامیابی اس کی بااثر قیادت کی مرہون منت تھی۔ موجودہ وقت میں بھی قیادت کی وہی صفات درکار ہیں تاکہ جذباتی کارکنوں کے اثر سے آزاد ہوکر مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔
پاراچنار اور کرم میں پیش آنے والے حالیہ سانحات پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ یہ واقعات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ رسمی بیانات اور دستاویزی منصوبے کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو فرقہ واریت اور اس کے پس پردہ زمین کے تنازعات کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ ایسے سانحات کا اعادہ نہ ہو اور ملک میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔