Author: حذیفہ مسعود

لکھاری انوائرنمینٹل انجینئر ہیں لیکن افتاد طبع کے باعث بطور لکھاری اور مترجم ہنر آزمائی کررہے ہیں۔

ارے آنکھیں تو دیکھو، زرد اور سرخ، اندر کو دھنسی ہوئیں، ضرور کسی بری لت میں مبتلا ہوگا۔۔۔ ہاں مجھے بھی یوں ہی لگتا ہے، ہڈی پسلی دیکھی ہے؟ ہر نئے دن سکڑتی جارہی ہے۔۔۔ رنگت دیکھی ہے؟ جیسے کوئلے کی کان میں کام کرتا ہو۔۔۔ اور ہونٹ تو مزید کالے ہوتے جارہے ہیں، ضرور تمباکو نوشی کرتا ہو گا۔۔۔ مجھے تو پہلے سے ہی لگتا تھا ، اور کل اذلان بھی بتا رہا تھا کہ میں نے اسے باجو والی کھڑوس آنٹی کے نشئی بیٹے کے ساتھ گلی کی نکڑ پردیکھا تھا۔۔۔ ہاں ورنہ کسی ٹھیک آدمی کی صحت…

Read More

راندہ درگاہوں کا اکٹھ کیا ہوا، گویا منی بدنام ہو گئی۔ ایک وقت تھا کہ منی کے بھائیوں کو صلے کی پروا تھی نہ ستائش کی تمنا، بس منی کو نچنا نچانا آتا تھا وہی کرتی رہتی،بھائی اسی پر خوش رہتےتھے، حالات مگر تب مختلف تھے، صرف برہنہ آنکھ ہی دیکھ سکتی تھی اور محض قریب دھرے کان ہی سن سکتے تھے، موئی ماری دیواروں کے کان تھے تو سہی مگر ان کی زبانیں اتنی لمبی نہیں ہوئی تھیں۔ سو سب سنا ان سنا، سب دیکھا ان دیکھا رہ جاتا تھا۔ لیکن اب نہ صرف دیواروں کے کان ہوتے ہیں،…

Read More