ارے آنکھیں تو دیکھو، زرد اور سرخ، اندر کو دھنسی ہوئیں، ضرور کسی بری لت میں مبتلا ہوگا۔۔۔ ہاں مجھے بھی یوں ہی لگتا ہے، ہڈی پسلی دیکھی ہے؟ ہر نئے دن سکڑتی جارہی ہے۔۔۔ رنگت دیکھی ہے؟ جیسے کوئلے کی کان میں کام کرتا ہو۔۔۔ اور ہونٹ تو مزید کالے ہوتے جارہے ہیں، ضرور تمباکو نوشی کرتا ہو گا۔۔۔ مجھے تو پہلے سے ہی لگتا تھا ، اور کل اذلان بھی بتا رہا تھا کہ میں نے اسے باجو والی کھڑوس آنٹی کے نشئی بیٹے کے ساتھ گلی کی نکڑ پردیکھا تھا۔۔۔ ہاں ورنہ کسی ٹھیک آدمی کی صحت بھی بھلا یوں بگڑتی ہے ۔۔۔ لڑکے بالے وقت کے ساتھ ساتھ جوان ہوتے ہیں اور مزید وقار آتا ہے ان کی شخصیت میں۔۔۔ اور ایک یہ دیکھنے سے بھی جاتا جارہا ہے۔۔۔ اور ایک بات سنی ہے تم نے! وہ بھائی بتا رہا تھا کہ اب رمضان میں بھی نمازیں نہیں پڑھتا۔۔۔ ارے ظاہری سی بات ہے، خدا کی پھٹکار پڑی ہو گی، میں نے ایک دن یونی ورسٹی سے واپسی پر اسے رُشنا کے ساتھ دیکھا تھا، کچھ کھسر پھسر کررہے تھے۔۔۔ اور تمہیں رُشنا کا تو پتہ ہی ہے، کیسے کیسے قصے زبان زدِ عام ہیں اس کے بارے میں۔۔۔اور تو اور کئی بار وہ لاڈو کھسرا، جو مانگنے آتا ہے، اس کے ساتھ بھی ایسے بات کرتے دیکھا ہے، جیسے پرانی یاری چل رہی ہو۔۔۔ اب جب کوئی ایسے کرتوت کرے گا تو بھلا خدا اسے کہیں اپنے سامنے کھڑا ہونے کی توفیق بخشے گا۔۔۔
کہتی تو تم ٹھیک ہی ہو۔۔۔ رمضان کا مبارک مہینہ ہے، پیٹھ پیچھے بات کرنی نہیں چاہیے لیکن مجھے بھی دال میں کچھ کالا ضرور لگتا ہے، میٹرک میں دیکھا تھا، پانچ وقت کی نماز، اچھے نمبر،اور اب دیکھو، نہ نماز نہ دعا۔۔۔ مردہ چہرہ، پیلی آنکھیں۔۔۔ گناہ کچھ تو اثر چھوڑتے ہی ہیں۔۔۔ سال بھر سے زیادہ ہو گیا ہے ، گھر میں دبکا پڑا ہے۔۔۔ ہمیں لگتا تھا کہ کوئی بڑا آدمی بنے گا۔۔۔ اور یہ ، دیکھو تو کیا بن گیا ہے۔۔۔ اگر مجھے کبھی ملے تو، میں یہ سب باتیں اس کے منہ پہ بھی کہہ سکتی ہوں۔۔۔!! کیا کہا؟ اس سے ملو گی تم؟ ایسے لڑکے سے ملو گی؟ ہاں تو ملنے میں حرج ہی کیا ہے! میں تو کبھی نہ ملوں۔۔۔ ایسے بد کردار لڑکے سے، میں تو اس کے سایے سے بھی دور بھاگوں۔۔۔ تم بھی خدا کا خوف کرو، یہ غیبت ویبت نہیں ہے، سچ ہے، حرف حرف سچ، بھلے اس کے پیچھے کہیں۔۔۔ کس کو نہیں پتہ کہ وہ کیا کرتا پھرتا ہے۔۔۔ پتہ ہو نہ ہو پھٹکار تو پڑی ہی ہے اس کے چہرے پر۔۔۔ "
یہ زیادہ ہو گیا۔۔۔ بہت ہی زیادہ ہو گیا۔۔۔ خیر یہ اس سے زیادہ نہیں ہے جو ہو چکا ہے۔۔۔ ارے آپ نیک بخت ، پردہ دار ، با حیا مجھ سے نہ ملیے، ہاں مگر ایک نا محرم برباد لڑکے کے بارے میں اس قدر معلومات کیوں رکھتی ہیں؟ ہاں نیک ہیں ناں، میرے فرشتے آپ کو خبر کر دیتے ہوں گے، خدا نے انہی کے ذمہ تو یہ کام لگایا ہے کہ ہر ایک برے آدمی کے بارے میں بھلے آدمیوں کو خبر کردیا کریں، اور پھر وہ بدکار جانے اور نیکو کاروں کی لٹھ۔۔۔ آپ یہی سوچتی ہیں، اور سوچ بھی کیا سکتی ہیں۔۔۔ بہت سے نیک بندے یہی سوچتے ہیں کہ افشیں دوپٹہ نہیں پہنتی، حالانکہ ان کی اپنی نظر ہمیشہ بھٹکی رہتی ہے۔۔۔ سالار کی شلوار ٹخنوں سے نیچے رہتی ہے، جبکہ ان کی پگ پیروں میں پڑی ہوتی ہے۔۔۔ لیکن یہ اصل میں مسئلہ نہیں ہے، نظر کا حد میں رہنا، شوقِ دل کا باادب ہونا اختیار میں نہیں ہے ناں! لیکن شلوار اور دوپٹہ تو اختیار میں ہے۔ زبان بھی کبھی پھسل جاتی ہے؛چغلی، گالی، غیبت ، بہتان سبھی روا ہیں، انسان غصے کا تیز واقع ہوا ہے۔۔۔ یہ سب خدا معاف کردیتا ہے۔۔۔ عادی مجرم کے لیے مگر کوئی معافی نہیں ہے، اعلانیہ گناہ گار کے لیے بھی۔۔۔ آپ کی سب باتیں بجا لیکن کچھ باتیں ادھر کی بھی ہیں، وہ سن لیجیے، مانیے نہ مانیے یہ آپ پر ہے! یہ صفائی نہیں ہے، گواہی بھی نہیں ہے، بس یہ دل کی بھڑاس ہے، غبارِ خاطر ہے، انگریزی میں جسے کیتھارسز کہتے ہیں۔
وہ دراصل کچھ تصویریں ادھوری ہیں، بہت ادھوری۔۔۔ بچپن کی، لڑکپن کی، نوجوانی کی، جوانی ابھی آئی ہی نہیں، بڑھاپا آگیا، بڑھاپے کی تصویر بھی لیکن ادھوری ۔۔۔ یادداشت میں لکھی کئی تحریریں بھی ادھوری ہیں۔۔۔ دوستیوں کی، خوشیوں کی، آرزؤں کی، خوابوں کی، خیالوں کی، خوشبوؤں کی، رنگوں کی، رشتوں کی، پربتوں صحراؤں کی، ستاروں کہکشاؤں کی، لا متناہی کائناتوں کی۔۔۔ ان کی تعداد درجنوں میں ہے، یہ دکھ ، تخلیق نہ کر سکنے کا دکھ، تکمیل کا دکھ، آپ کی سوچ ہے! سوچتا ہوں کہ کھل کر بتاؤں مگر نہیں، بس یہی اشارے کنایے آپ سمجھ لیں تو ست بسم اللہ، وگرنہ خدا تو سنتا، دیکھتا سمجھتا سب ہے ہی! ہاں تو ادھوری تصویروں تحریروں کی بات ہو رہی تھی۔۔۔ اب یہ ا دھوری ہیں تو ہیں، قسمت کا لکھا ہے، قبول کر لیا ہے، لیکن یہ چین نہیں پڑتا، آنکھ نہیں لگتی، بھوک نہیں محسوس ہوتی۔۔۔ آدھی ادھوری چیزیں کب تک آدھی رہیں گی؟ ہمیشہ تک، لیکن یہ ذہن نہیں مانتا، ستاروں کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور کہکشاؤں میں ان تصویروں کو مکمل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔۔۔ آنکھیں، کہ خواب بُنتی ہیں، ان ہی تصویروں کے خواب جو مکمل نہیں ہیں، ان ہی ادھوری تحریروں کی تکمیل کے خواب۔۔۔ دل کسی کھوج میں ہمیشہ رہتاہے، کہیں کوئی سراغ ملے، کہیں کوئی سرا ہاتھ آئے تاکہ تکمیل کی آرزو پوری ہو سکے۔۔۔ جان ہے کہ پھر نہیں سنبھلتی، ہمیشہ سفر کے لیے بے قرار رہتی ہے، وہ بھی دائرے کا سفر۔۔۔ یعنی مسلسل، پیہم، مستقل۔۔۔ کہیں قرار نہیں ہے، اور قرار کی خواہش بھی نہیں ہے۔۔۔ یہ کیسا الجھاؤ ہے، یہ کیسی بھول بھلیاں ہیں! ہاں مگر آپ آنکھوں کے حلقے، بے رونق چہرے کی زرد رنگت اور مریل نڈھال بدن کے پیچھے جٹے نشئی، رُشنا بے غیرت اور لاڈوکھسرے سے ناروا تعلق کو ڈھونڈتی رہیں، کیوں کہ آپ ہم ایسے آدھے ادھوروں کے سانجھےدکھ کو نہیں سمجھ سکتیں، آپ کامل ہیں، تکمیل کی تشنگی سے کہاں واقف ہوں گی!
کئی ادھوری تحریروں میں سے ایک:
"جنیتا! تم جانتی ہو قہقہہ لگاتے ہوئے اچانک آپ کو بچھڑے ہوئے کسی شخص کا یکا یک خیال آجائے تو کیا ہو تا ہے؟ خدا کرے تم کبھی اس اذیت سے شناسائی نہ پا سکو، تم آسودہ رہو، تمہیں کبھی تمہارے بہت پیارے، تمہاری روح اور تمہاری آنکھوں کی راحت کا ساماں شخص کے ہجر کی اذیت سے نہ گذرنا پڑے، اور اگر تم گذر چکی ہو تو تم جانتی ہو کہ یہ کرب اس سے سوا ہے کہ کوئی کسی کے چلے جانے کے بعد بھی زندہ رہے۔
زندگی کس قدر ظالم، کس قدر ایذا رساں اور کس قدر کرب ناک ہے، زخم پہ زخم دیے چلی جاتی ہے اور پھر اسی کے تغیر زمانی کی دھول زخموں پہ مرہم اور چاک گریباں کی بخیہ گری کا عنوان بن جاتی ہے، کبھی مگر تمہیں معلوم ہے کہ انسان بخیہ گری چاہتا ہی نہیں ہے، وہ کسی کو درد کا درماں بھی نہیں کرنا چاہتا۔ وہ دکھ کو کسی مفلس کی پونجی کی طرح عزیز رکھتا ہے، اسے سنبھالتا ہے اور اسے ہمیشہ اپنے قریب تر رکھتا ہے۔ اس کی کل کائنات بس اسی ایک یاد میں سمٹ آتی ہے۔
زخم مگر بھرنے لگتے ہیں، کریدنے کے لیے ناخن بھی نہیں بڑھ پاتے، زمانے کی گرد دل کے گھاؤ، روح کے گھاؤ، جسم کے گھاؤ مٹانے لگتی ہے، یہ کچھ زخموں کا مٹ جانا کس قدر درد ناک ہے۔
کسی کی یاد کے جزیروں کو آباد رکھنے کے لیے ہزار جتن کرنے پڑتے ہیں، ناخن بڑھائے رکھنے پڑتے ہیں، گریباں کی رفو گری سے دور رہنا پڑتا ہے، لیکن ظلم یہ ہے کہ یہ سب بے سود ہے۔ زندگی کی زود فراموشانہ روش قابل گرفت حد تک سفاک ہے، ہمارے تصور سے زیادہ قبیح، ہمارے وہم و گمان سے زیادہ بے رحم و بے حس، وہ جن کے بغیر پل گذارنے کا خیال بھی موت سے زیادہ دکھ اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے، ان کے چھوڑ جانے اور ایسی جگہ چلے جانے کے بعد کہ جہاں سے واپسی نہیں ہوتی، جو رہروان رہ عدم ہوجاتے ہیں یا ساکنان شہر بقا، سانس لینا پڑتے ہیں، زندگی جینا پڑتی ہے، سانس لینے اور زندگی جینے کی تمام بے کیف ہلاک کردینے والی کوششیں جاری رکھنا پڑتی ہیں. یہ دکھ، یہ کرب، یہ غم باقی تمام تر دکھوں سے الگ، اس کی تکلیف سب سے سوا۔۔۔۔۔”