راندہ درگاہوں کا اکٹھ کیا ہوا، گویا منی بدنام ہو گئی۔ ایک وقت تھا کہ منی کے بھائیوں کو صلے کی پروا تھی نہ ستائش کی تمنا، بس منی کو نچنا نچانا آتا تھا وہی کرتی رہتی،بھائی اسی پر خوش رہتےتھے، حالات مگر تب مختلف تھے، صرف برہنہ آنکھ ہی دیکھ سکتی تھی اور محض قریب دھرے کان ہی سن سکتے تھے، موئی ماری دیواروں کے کان تھے تو سہی مگر ان کی زبانیں اتنی لمبی نہیں ہوئی تھیں۔ سو سب سنا ان سنا، سب دیکھا ان دیکھا رہ جاتا تھا۔ لیکن اب نہ صرف دیواروں کے کان ہوتے ہیں، بلکہ آنکھیں، ہاتھ پاؤں، دو دو گز لمبی زبانیں نکل آئی ہیں اور تو اور اب تو بالاخانے پر دھری میز کرسیوں اور پلنگوں کے بھی کان ناک زبان سبھی ہمہ دم مصروف کار رہتے ہیں۔ لہذا منی کی جو پر اسراریت تھی، بالاخانوں تک محدود، جس کے حسن و کرشمات کے چرچے مگر زبان زدِ عام تھے، اب اس کی کمیوں کوتاہیوں کی باتیں بھی ارزاں ہونے لگیں اور اس کی عامیانہ باتیں بھی طشت ازبام،یوں پراسراریت ہوا ہوگئی سو اب منی کے بھائی بوکھلائے پھرتے ہیں۔ حد سے گزری بے نیازی اب حد درجے نیاز مندی کے ساتھ منت ترلے میں بدل گئی ہے، گاہے سطوتِ گذشتہ دم مارنے لگتی ہے مگروہ میاں مدن کی سی بات اب کہاں۔
بالاخانوں کی سیر کرنے والے اتنے وضعدار رہے نہ فن کاری کے وہ جوبن، لہذا اب بات زلف ورخسار،اجلی چولی اور گھاگھرے سے زیادہ کہیں آگے نکل گئی ہے۔ اب فن کے قدر دان فنی باریکیوں پر کم خمیدہ کمر کی کج ادائی پر زیادہ نظر رکھتے ہیں، انہیں اپنی شرافت سے بھی اب سروکار نہیں، وہی جو ان کی کمزوری تھی اب طاقت میں بدل گئی ہے۔ پاسِ ادب و لحاظِ خاطریوں رخصت ہوا کہ کہاں بالاخانے کی سیر کے بعد ہفتہ دوہفتہ بڑوں کا سامنا نہیں کر پاتے تھے، اب نہ صرف اجازت لے کر جاتے ہیں بلکہ بعد از واپسی تمام تر حالات و واقعات بھی رو برو کر دیتے ہیں۔ منی کے بھائیوں کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ اس کے لیے وہ کسی بھی شریف آدمی کی پٹائی کرکے ادھ موا چھوڑ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگ منی کی بجائے رضیہ اور شیلا کی طرف انگلی اٹھائیں گے، بہت سے اٹھاتے بھی ہیں مگر اب یہ بات قدرے مسلمہ ہو چکی ہے کہ اتنے غیرت مند بھائی باپ صرف منی کے ہی ہیں کسی اور کے نہیں۔
کل ہی کی بات ہے شرفا کے ایک بڑے قبیلے کے سربراہ نے نسبتاً کم عددی حیٰثت کے مالک ایک قبیلے کے پیشوا کے عمل کو پلو سے باندھتے ہوئے اپنے قبیلے سے کہا ہے کہ ہماری اجازت کے بنا کوئی کسی بالاخانے پر نہیں جائے گا۔ ہمیں یہ منظور نہیں ہے کہ منی کے بھائیوں کے ہاتھ ہماری کوئی کمزوری آئے، اگر ہم منی کا ناچ دیکھنے جائیں گے بھی تو اپنی شرط پر، نہیں تو ان کی بہت ہتک ہوتی ہے۔ دو بڑے قبیلوں سے ایک، جو منی کی کج ادائی و بے راہ روی کا بلند آہنگ ناقد بھی ہے، ابھی بھی کہیں نہ کہیں منی کے بھائیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے اور دوسرے چھوٹے بڑے قبیلوں کی طرح کھل کر سامنے نہیں آرہا، دوسرے بڑے قبیلے میں بھی ایک دھڑا کسی حد تک یہی چاہتا ہے کہ ان کا بھرم بھی رہے اور منی کی عزت بھی، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ اس قبیلے کا سربراہ ان کی بات ماننے کو تیار نہیں اور چھوٹے قبیلے اب منی کے بے ڈھنگے ناچ سے اکتا چکے ہیں۔
منی کے بھائیوں کا پر زور اصرار ہے کہ وہ صرف اپنے کام سے کام رکھتےہیں، بالاخانے پر مہمانوں کی تواضع کا مقصد یہی تھا کہ منی کی مٹی میں ملتی عزت کو بچانے کی کوشش کی جائے اور دیرینہ دوستوں سے، جو اب دیرینہ نہیں رہے، دست بستہ عرض کیا جائے کہ آپ منی اور اس کے بھائیوں کا نام نہ لیں، آپ منی کے لے پالکوں کے بارے میں جو کہیں آپ کی مرضی۔ بڑے قبیلے کے ایک قدرے نئے اور چھوٹے سربراہ نے تو یہ بات مان لی، دوسرے بڑے قبیلے کے ایک ‘معاملہ فہم’ اور ‘صلح جو’ رہنما نے بھی کوشش کی مگر ایک چھوٹے قبیلے کے سپوت نے پدردلیر کے کان میں سارا قصہ گوش گزار کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے دونوں بڑے قبیلوں کی دم پر پاؤں رکھ دیا، حکماً تقاضہ کیا کہ تہارے ساتھ چلنےکا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ تمہارے سربراہ ہماری بیٹھک میں تشریف لائیں گے اور وہی کہیں گے جو سچ ہے،منی کے بھائیوں اصرار کے برعکس آج پالنہاروں کو موضوعِ بحث بنائیں گے۔ وہی ہوا جوقائدِ بزرگوار نے چاہا اور منی کی نیم برہنگی کو عیاں کردیا۔
بس وہ دن اور آج کا دن منی کے بھائی مسلسل اپنی صفائیاں دیے جا رہے ہیں، لیکن بجائے اس کے کہ وہ اپنی منی کی چادر ٹھیک کریں دوسروں کے پیرہن اتارنے کی تگ ودو کررہے ہیں، ان کا چلن یہی ہے، حالانکہ اب وہ سلیم میاں کا دور نہیں رہا، لیکن یہ بات منی کو اور اس کے بھائیوں کو کون سمجھائے۔ ایک دو ادھر ادھر کے لے پالک بھی میدان میں آئے اور پھر کھسیانے ہو کر وہیں چل دیے جہاں سے آئے تھے کیوں کہ آخری اطلاعات کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک چھوٹے قبیلے کی قدآور شخصیت نے منی کے اس دعویٰ کو مٹی سے دھو ڈالا ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتی ہے، لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر منی اپنے کام سے کام رکھتی ہے تو اپنے بالاخانے پر شرفا کو باقاعدہ دعوت دے کر کیوں بلاتی ہے۔ ادھراسی قبیلے کے سربراہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اپنی کج ادائی اور نیم عریانی کی پردہ داری مت کیجیے کہیں منی کی پردہ دری ہی نہ ہوجائے۔ منی کو بھی چاہیے کہ اب اپنی رہی سہی ساکھ اور عزت کا پاس رکھے اور جس فن میں اب وہ تاک نہیں رہی، جس کی کجیوں کو وہ ڈھانپ نہیں پارہی، اسے ترک کر دے، یہ اس کے لیے اچھا ہے۔ اسی میں ہی سب د ابھلا سب دی خیر ہے!