پاکستانی ڈرامہ اوائل ہی سے جس تخلیقی و تکنیکی مہارت سے لیس اپنے ناظرین کے دلوں پر نقش ہو جایا کرتا تھا، اب زوال کی طرف گامزن دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی ڈرامہ اب ادب کی قیود سے نکل کرغیر دلچسپ اور عامیانہ افسانوی انداز میں تحریر کیا جا رہا ہے اور وہ بھی پھکڑ پن کے ساتھ، پاکستانی ڈراموں میں رشتوں کے تقدس کی پاسداری کم سے کم محسوس ہوتی ہے۔ غرضیکہ جتنے تھپڑ ایک خاتون کے چہرے پر پڑیں گے، ڈرامہ اتنا ہی ہِٹ ہوگا۔
یہ سب وہ اعتراضات ہیں، جو پاکستانی ڈراموں پر ناظرین، ناقدین اور خود ڈرامہ نگاروں نے لگائے۔
ٹی وی کا مزاج پی ٹی وی کے بعد چینلوں کی بہتات کی نظر ہوگیا اور پھر شاید یہ تفریح کا میڈیم اپنی ساکھ کھو بیٹھا۔ تھوک کے بھاؤ ڈرامے بننے لگے اور جو کمپنیاں پہلے اشتہار بنایا کرتی تھیں، وہ پچیس پچیس منٹ کے ڈرامے بنانے لگیں کیونکہ پی ٹی وی تکنیکی اور معاشی اعتبار سے کمزور تر ہوتا چلا گیا اور اشتہار بنانے والی کمپنیاں جو تکنیکی اعتبار سے ٹھوس کام کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں، حاوی ہوتی چلی گئیں۔
اسی طرح ڈرامہ نگاروں کی جگہ ڈائجسٹ نگاروں نے لے لی۔ ڈرامہ اپنے حقیقی ماحول سے نکل کر خیالی دنیا میں جا بسا، جہاں رومان، جنسی لگاؤ، دکھاوا، منفی کردار اور گانوں نے قدم جمالیے۔
پاکستانی ڈرامہ جب 70 اور 80 کی دہائی میں نشر ہوا کرتا تھا تو سڑکوں پر سناٹا ہوتا تھا، دیکھنے والے انکل عرفی، شہ زوری، افشاں، قباچہ اور اِکا بوا جیسے حقیقت سے قریب تر کرداروں میں خود کو تلاشتے ملتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب ڈرامے میں عورت کا کردار مضبوط اور مستحکم دکھایا گیا۔ یہ کردار ہمارے ماحول اور اقدار کے آٹے سے گندھے ہوتے تھے۔ ان میں زبان کی چاشنی ہوتی اور ہماری اقدار کا رنگ ہوتا۔ ان ڈراموں کی کشش سڑکوں کے سناٹے سے ظاہر ہوتی تھی۔
پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں کردار و افکار کی ایک لڑی ہوا کرتی تھی، جو اپنی ترتیب نہیں بھولتی تھی۔
لیکن اب ہر چینل صرف عشق و محبت کی افسانوی کہانیاں، غیرحقیقی موضوعات کی چادروں میں لپیٹ کر پیش کر رہا ہے اور جس قدر اب عورت کے خود مختار ہونے کا چرچا اور کوشش ہے، ہمارے ٹی وی ڈرامے اسی قدر عورت کو محکوم اور لاچار دکھانے پر مصر ہیں۔ اب ڈرامے فیملی ڈرامے نہیں رہے۔
اب اہلخانہ اکھٹے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے سے کتراتے ہیں۔
جس ملک کے نصاب میں سیکس ایجوکیشن آج بھی متنازع ہے، وہاں کے ٹی وی ڈرامے شادی سے باہر رشتوں کی بات کرتے کچھ جچتے نہیں۔ اب ڈرامے میں ایک مرد، دو عورتوں کے درمیان میدانِ جنگ بنا دکھائی دیتا ہے۔ بقول ادبی ناقد سلمان آصف بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد وعورت کے تعلقات آپس میں کیسے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ 70 کی دہائی میں ڈراموں میں عورت کا کردار عمل انگیز ہوا کرتا تھا، لیکن پھر وقت کے ساتھ جس طرح سیاسی سانچوں میں تبدیلی آئی، ہمارے ادبی کردار بھی صنفی عدم مساوات کا شکار ہوتے گئے۔ خدا کی بستی جیسے ڈرامے میں مرد و عورت کے کردار اور ہمارے سماج کا گہرا احاطہ کیا گیا تھا۔‘
حسینہ معین نے جو ڈرامے لکھے، انور سجاد اور ممتاز مفتی نے جو کھیل لکھے، فاطمہ ثریا بجیا نے جن کرداروں کو جِلا دی، وہ ہمارے ارد گرد بکھرے ہم آپ جیسے لوگوں کے عکاس تھے۔ اپنے مزاج و ماحول سے مطابقت رکھتے یہ کردار، ہر اداکار اپنی منفرد چھاپ کا مالک تھا۔
پھر پڑوسی ملک سے ’بالا جی‘ پروڈکشن کا تہلکہ آمیز ریلہ آیا اور اپنی چکا چوند میں پاکستانی ٹی وی ڈرامے کی اقدار بہا لے گیا۔
آج کل اس بچھڑی روایت سے ناطہ اکثر ہمیں لکھاری فصیح باری خان کے کھیلوں میں بحال ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ فصیح باری خان ایک ناظر کی نظر سے آج کے ڈرامے پر اپنی رائے دیتے ہوئے مانتے ہیں کہ ’ڈرامہ اپنی ساکھ کھونے کی راہ پر گامزن ہے اور اس کی وجہ ان ڈراموں کا خام مال یا کونٹینٹ ہے، پہلے ہم ڈرامے کی کہانی کے ساتھ بہہ رہے ہوتے تھے، مگر اب اتنی یکسانیت ہے کہ ہم اگلی قسط یا سین خود سمجھ جاتے ہیں، اداکاری میں انفرادیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔‘
فصیح باری کا ماننا تھا کہ ’ہم آج پرانے ڈرامے اسی لیے یاد کرتے ہیں کیونکہ ہمیں ان میں اپنی جھلک ملتی تھی۔‘
پاکستان کا سیاسی اور سماجی مزاج کیموفلاج ہو چکا ہے، اس پر مذہبی اور معاشی انتہا پسندی کی موٹی چادر تنی ہے، ورنہ کشمیر سے لے کر فاٹا اور بلوچستان تک انسانی حقوق سے جڑی اَن گنت کہانیاں موجود ہیں جو ٹی وی، فلم اور تھیئٹر کے پلیٹ فارم سے دیکھنے والے ذہنوں کو جھنجھوڑ سکتی ہیں۔
لیکن اپنے ڈراموں پر صرف تنقید ہمارے تخلیق کاروں کے لیے حوصلہ مند نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ انہی ڈرامہ نگاروں نے ’زندگی گلزار ہے‘ اور ’صدقے تمہارے‘ جیسے دل پر نقش کردینے والے کھیل تحریر کرکے ناظرین کے دل جیتے ہیں، جن میں عورت اپنی مرضی و محاز پر ڈٹی نظر آئی۔
Related Posts
Add A Comment