یہ واقعہ تیرھویں صدی کے وسط کا ہے جب عباسی حکمران المستعصم نے منگول فوج کے مسلسل محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد کی تاریخ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگی۔ مورخین کے مطابق خلیفہ کی گرفتاری کے بعد ہلاکو خان کی قیادت میں منگول فوج نے خلافت عباسیہ کے دارالحکومت بغداد میں تباہی مچا دی۔ ہزاروں لوگ مارے گئے، کئی عمارتیں تباہ کر دی گئیں جن میں ’بیت الحکمہ‘ نامی ایک لائبریری بھی شامل تھی۔ اس کتب خانے کو اسلام کے سنہری دور کی عظیم یادگاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
بغداد اس قدر خوشحال تھا کہ دنیا بھر سے علماء اور دانشور بلا تفریق مذہب و ملت وہاں علم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں یہ شہر تیزی سے سائنسی تجربات کے مراکز میں سے ایک بن گیا ہے۔ لیکن اب اس قدیم لائبریری کا کوئی نشان باقی نہیں۔ سنہ 1258 کے اوائل میں بغداد پر قبضے کے بعد منگولوں نے لائبریری کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔
محققین کے مطابق لائبریری میں محفوظ کتابوں کا بڑا حصہ جل کر راکھ ہو گیا جبکہ بہت سی کتابوں کو دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا۔ لوک داستانوں کے مطابق اتنے جلے ہوئے نسخے دجلہ میں پھینکے گئے کہ روشنائی اور کالک سے دریا کا پانی سیاہ ہوگیا۔ تاہم ایسا واقعی ہوا تھا یا نہیں، یہ بات متنازعہ ہے۔ بہر حال زیادہ تر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ لائبریری اس وقت دنیا میں علم کے سب سے بڑے مراکز میں سے ایک تھی۔
لیکن لائبریری تباہ ہونے سے پہلے کیسی نظر آتی تھی؟ کس قسم کی کتابیں دستیاب تھیں اور انھیں کیسے جمع کیا گیا تھا یہ آج بھی ایک معمہ ہے۔
’بیت الحکمہ‘ کی بنیاد کس نے رکھی؟
عربی لفظ ’بیت الحکمہ‘ کا مطلب ’علم و حکمت کا گھر‘ ہے۔ اس مشہور لائبریری کو اسلام کے سنہری دور کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو عباسی خاندان کے دور حکومت میں تیار ہوئی۔
مورخین کے مطابق یہ ابتدائی طور پر عباسی حکمرانوں کی نجی لائبریری تھی جسے بعد میں عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ ملائیشیا کی اسلامک یونیورسٹی کے ایک استاد عادل عبدالعزیز کے ایک مضمون میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس بارے میں مورخین میں تین طرح کی آرا پائی جاتی ہیں کہ عباسی حکمرانوں میں سے کس نے اس لائبریری کو قائم کیا تھا۔ پروفیسر عبدالعزیز نے ’اسلامی کتب خانوں پر بیت الحکمہ کے اثرات‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں بہت سے محققین کا ذکر کیا ہے کہ پہلی ’بیت الحکمہ‘ عباسی خاندان کے دوسرے حکمران ابو جعفر المنصور کے دور میں قائم ہوئی تھی۔ ان کے مطابق خلیفہ المنصور نے ذاتی دلچسپی کے تحت مختلف مقامات سے طب، فلکیات، ریاضی، انجینئرنگ، مذہب، فلسفہ، تاریخ، ادب سمیت مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا شروع کیں۔ پروفیسر عزیز نے عراقی محقق ایس الدیازی کے حوالے سے لکھا: ’اس نے مسلمانوں کو سائنس کے مطالعہ ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی ترغیب دی۔‘
بعض محققین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ خلیفہ المنصور کے دور میں یونانی، فارسی، سنسکرت اور دیگر زبانوں کی اہم کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اور اس طرح وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’بیت الحکمہ‘ کی بنیاد دوسرے عباسی خلیفہ کے دور میں رکھی گئی تھی۔ تاہم مورخین کا دوسرا گروہ اس نظریے کی تائید نہیں کرتا۔ ان کے مطابق بغداد کی یہ مشہور لائبریری بہت بعد میں مشہور خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں بنائی گئی۔
پروفیسر عبدالعزیز کہتے ہیں: ’خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں، فکری میدان میں بہت ترقی ہوئی، خاص طور پر ترجمے کی تحریک کے دوران۔‘
عباسی خاندان کے پانچویں خلیفہ ہارون الرشید کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے عرب، ایران اور شام کے بہت سے علماء اور دانشوروں سے دوسری زبانوں سے عربی میں بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرایا۔
بہت سے محققین نے بارہویں صدی کے مشہور مورخ یاقوت ابن عبداللہ کی ایک تحریر کا حوالہ دیا ہے۔ یاقوت ابن عبداللہ نے اپنی ایک تصنیف میں نویں صدی کے ایک عالم ابو عیسیٰ الوراق کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خلفائے راشدین اور آل راشد مامون کے دور میں بیت الحکمہ کے لیے مختلف کتابوں کے نسخے تیار کیا کرتے تھے۔ لیکن اس طرح کے شواہد پیش کرنے کے باوجود ایک تیسرا گروپ بھی ہے جو یہ مانتا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے المامون نے دراصل بغداد میں اپنے پیشرووں کی جمع کردہ کتابوں سے لائبریری کی بنیاد رکھی تھی۔
برطانوی مورخ ڈی لیسی اولیری بھی اس نظریے کی تائید کرتے ہیں۔
اولیری کہتے ہیں: ’خلیفہ المامون نے ایک سکول قائم کیا، جس کا نام ’بیت الحکمہ‘ رکھا۔ وہاں یونانی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔‘ عادل عبدالعزیز کے مطابق تقریباً یہی رائے امریکی مورخ ولیم جیمز ڈیورنٹ اور بہت سے دوسرے لوگوں کی تحریروں میں پائی گئی ہے۔
پروفیسر عزیز نے کہا: ’اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیت الحکمہ بغداد میں المامون سے بہت پہلے موجود تھی۔ لیکن غالباً ان کے دور حکومت میں یہ لائبریری زیادہ کتابوں سے مالا مال ہوئی۔‘
نویں صدی کی مختلف دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سلطنت عباسیہ کے ساتویں حکمران المامون ابن ہارون کو سائنس میں گہری دلچسپی تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد انھوں نے اس کی سرپرستی میں اضافہ کیا اور اس طرح بیت الحکمہ کی شہرت پھیل گئی۔
یہ لائبریری کہاں واقع تھی؟
اس زمانے کے مصنفین اور مورخین کی متعدد تصانیف میں بیت الحکمہ کا ذکر موجود ہے لیکن اس کے مقام کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
اگر اسے ابتدائی طور پر عباسی خلفاء کی ذاتی لائبریری مان لیا جائے تو اس خیال سے یہ اصل میں محل کے اندر ہی کہیں واقع رہی ہوگی۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ لائبریری خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں بھی شاہی محل کے ساتھ ہی تھی۔ لیکن کچھ لوگ اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کتابیں اندر نہیں بلکہ محل کے اردگرد بنے ایک بڑے کمرے میں رکھی گئی تھیں۔ لیکن بعد میں خلیفہ المامون کے دور میں جب کتابوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تو محققین کے مطابق لائبریری کو بغداد کے مشرقی حصے میں دریائے دجلہ کے کنارے منتقل کر دیا گیا۔
پروفیسر عبدالعزیز نے عراق کے کچھ مقامی محققین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ لائبریری کو الروسافہ نامی جگہ پر منتقل کیا گیا تھا جو دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ تاہم، اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا لائبریری کو واقعی محل سے دور لے جایا گیا تھا۔
بعض محققین کا خیال ہے کہ کتابوں کی تعداد میں اضافے کے بعد جو نئی عمارت تعمیر کی گئی ہے وہ شاہی محل کے قریب کہیں تعمیر کی گئی ہو گی۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف سرے میں فزکس کے پروفیسر جم الخلیلی نے بی بی سی فیوچر کو بتایا کہ ’بیت الحکمہ کہاں یا کب قائم ہوا اس کا تفصیلی تجزیہ ہمارے لیے واقعی بہت اہم نہیں ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اہم بات سائنسی نظریات کی تاریخ ہے کہ وہ کیسے اس مقام تک پہنچے جہاں وہ آج ہیں۔‘
تباہی سے قبل لائبریری کیسی تھی؟
محققین کے مطابق لائبریری کے اندر ایک بڑی کھلی جگہ تھی اور یہ کئی بڑے دو منزلہ کمروں سے گھری تھی۔
عمارت کے چاروں کونوں پر چار بڑے گنبد تھے۔ اس کے علاوہ لائبریری کے مرکزی کمرے میں بھی ایک بہت بڑا اونچا گنبد تھا۔ عمارت کے گراؤنڈ فلور پر دیواروں سے جڑی الماریوں کی قطاروں میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ مذہب، فلسفہ، سائنس، ادب سمیت ہر موضوع پر کتابوں کے لیے الگ الگ شیلف بنائے گئے تھے تاکہ وہ آسانی سے مل سکیں۔
مطالعہ کی سہولیات کے علاوہ، لائبریری میں ترجمہ، نقل، جلد بندی اور تحریر کے لیے الگ الگ شعبے تھے۔ ان کاموں کے لیے ہنر مند افراد کو ملازمت دی گئی تھی، جنھیں اچھی تنخواہ ملتی تھی۔ بغداد کے عظیم کتب خانے میں عربی زبان میں بہت سی کتابیں موجود تھیں۔ تاہم جمع کی گئی زیادہ تر کتابوں کا دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ دسویں صدی کے مصنف اور مؤرخ ابن الندیم نے اپنی کتاب ’الفہرست‘ میں کم از کم 67 مترجمین کا ذکر کیا ہے جنھوں نے بیت الحکمہ کے لیے کام کیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے علماء بھی وہاں کام کر سکتے تھے۔ مصنفین، مترجمین، طلباء اور عملے کے لیے عمارت کی بالائی منزلوں پر رہائش کے انتظامات تھے۔
محققین کے مطابق دریا کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے لائبریری کے اردگرد کا ماحول بھی بہت خوشگوار تھا۔
وہاں کس قسم کی کتابیں تھیں؟
محققین کا کہنا ہے کہ اس وقت لکھی گئی علم کی تقریباً تمام اہم کتابیں ’بیت الحکمہ‘ میں موجود تھیں۔ ان میں زیادہ تر طب، سائنس، مذہب، فلسفہ، تاریخ اور ادب کی کتابیں تھیں۔
مورخین کا خیال ہے کہ لائبریری میں کئی لاکھ کتابیں اور دستاویزات تھے۔ کتابوں کی تعداد کے بارے میں کوئی درست معلومات نہیں ہیں اور کتابوں کے لاکھوں میں ہونے کی بات بھی متنازع ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ لائبریری میں کتابوں سے زیادہ سرکاری دستاویزات موجود ہوا کرتے تھے۔ تاہم، بی بی سی فیوچر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت لندن کی برٹش لائبریری یا پیرس کی ببلیوتھیک نیشنل میں جتنی کتابیں ہیں ماضی میں بیت الحکمہ میں بھی اتنی ہی کتابیں تھیں۔ اس سلسلے میں بہت سے محققین نے فارس کے مسلمان عالم ناصرالدین الطوسی کا نام نقل کیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چند کتابوں کے مخطوطات کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
تقریباً 47 افراد نے یونانی اور سریانی زبانوں کی کتابوں کے ترجمے کے لیے کام کیا۔ اس زمانے کے قابل ذکر مترجموں میں ابو مشار، حنین ابن اسحاق، ابن الاسام اور ثابت ابن قرح، حجاز ابن مطیر، الکندی، البلبکی اور بہت سے دوسرے ہیں۔ ان میں الکندی اور حنین ابن اسحاق نے یونانی زبان میں لکھی گئی کتابوں کا ترجمہ کرکے اپنا نام روشن کیا۔ سائنس کے میدان میں میڈیکل سائنس پر بہت سی کتابوں کا ترجمہ ہوا۔ ان میں ایک قابل ذکر کتاب یونانی طبیب پیڈینیس ڈایسکروڈائس (دیسکوریدوس) کی ’میٹیریا میڈیکا‘ ہے۔
طبی علوم کے علاوہ ریاضی، طبیعیات، فلکیات، طب، کیمسٹری اور انجینئرنگ کی کتابیں بھی لائبریری کے ذخیرے میں تھیں۔ مذہب اور فلسفہ پر بھی کتابیں تھیں۔ اس میں قرآن وحدیث کے علاوہ اسلام سے متعلق مختلف تشریحات و تجزیہ کی کتب بھی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے نظریات کو بھی لائبریری میں جگہ ملی تھی۔ آج کی طرح اس لائبریری میں عام لوگ بھی جا کر کتابیں پڑھ سکتے تھے اور انھیں خاص صورتوں میں کتابیں بھی دی جاتی تھیں۔
مورخین کا کہنا ہے کہ کتب خانہ میں ترجمے کی کتابوں کے علاوہ بہت سے اہم اصلی کتابی نسخے، تعمیراتی ڈیزائن، نقشے، دستاویزات وغیرہ رکھے گئے تھے۔
اتنی کتابیں کیسے جمع ہوئیں؟
مؤرخین بغداد کی عظیم لائبریری کو مالا مال کرنے میں ترجمے کی تحریک کے کردار پر زور دیتے ہیں۔
یہ فکری تحریک اصل میں آٹھویں صدی میں بغداد میں شروع ہوئی، جسے خود عباسی خلفاء کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس تحریک کا مقصد مسلمانوں کو سائنس کی مختلف شاخوں اور نظریات سے متعارف کروا کر ان کی فکری بالیدگی کو تقویت دینا تھا۔ محققین نے بتایا کہ اس تحریک کے نتیجے میں فارسی، یونانی، لاطینی، شامی، مصری، چینی، سنسکرت اور دیگر زبانوں میں لکھی گئی کئی اہم کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا۔
تقریباً ڈیڑھ سو سال تک جاری رہنے والی تراجم کی تحریک کا آغاز فارسی زبان کی چند اہم کتابوں کے ترجمے سے ہوا۔ عربی میں لکھی گئی کتابوں کو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ عباسی حکمرانوں نے فارسی کتابوں کو مادری زبان میں تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ دوسری زبانوں میں کتابوں کا ترجمہ ہونے لگا۔ اس معاملے میں، دوسری زبانوں میں اصل کتابیں خریدی گئیں، کاپی کی گئیں، یہاں تک کہ مستعار لی گئیں اور ان میں سے اکثر ترجمے کے مرحلے سے گزریں۔
محقق ڈاکٹر حسن احمد محمود نے کہا: ’عباسی حکمرانوں نے کتابیں خریدنے کا معاہدہ کیا اور ان کے لیے بہت زیادہ قیمتیں ادا کیں، خاص طور پر خلیفہ المامون کے دور میں۔‘ مورخین کا یہ بھی خیال ہے کہ کچھ کتابیں فتوحات کے نتیجے میں جمع کی گئی ہوں گی۔ ترجمہ کے بعد کئی نسخے بھی بنائے گئے، تاکہ اگر ایک گم ہو جائے تو دوسرا محفوظ رہے۔
نویں صدی میں خلیفہ المامون کے دور میں اس تحریک میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا۔ بیت الحکمہ میں یونانی سے ترجمہ شدہ کتابوں کی تعداد قابل ذکر تھی۔
محققین کے مطابق خطوط بھیج کر ان لوگوں سے کتابیں مستعار لینے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن کے پاس اس وقت یونانی زبان کی کتابیں تھیں۔
ان کے بقول اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ علم کی ترقی کے اس دور میں عربوں کو یونانی فلسفیوں کے فلسفے، ادب اور طبی علم میں بہت دلچسپی تھی۔ نتیجتاً، عباسی حکمرانوں نے یونانی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرنے کے لیے مذہب و ملت سے قطع نظر اعلیٰ معاوضہ دے کر علماء کی خدمات حاصل کیں۔
مورخین کا خیال ہے کہ افلاطون، ارسطو، ہپوکریٹس (بقراط)، بطلیموس، پائتھاگورس، آرکیمیڈیز، گیلن، یوکلڈ سمیت متعدد مفکرین کی لکھی یونانی تحریروں کا چند دہائیوں میں ترجمہ کرنا ممکن ہوا۔
’کتابوں کا وزن سونے کے سکوں میں‘
کہا جاتا ہے کہ عباسی حکمرانوں نے کسی دوسری زبان کی علمی کتاب کا عربی میں ترجمہ ہونے کی صورت میں کتاب کے وزن کے برابر سونے کا تحفہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
یونیورسٹی اسلام ملائیشیا کے پروفیسر عادل عبدالعزیز کے مطابق: ’متعدد ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ المامون نے اس وقت کے مشہور مترجم حنین ابن اسحاق کو یونانی زبان کے قدیم متون کے ترجمے کے لیے کتاب کے وزن سے سونے میں اجرت ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔‘ لیکن مغربی محققین کا کہنا ہے کہ اس کے شواہد نہیں ملتے ہیں۔ تاہم، ان مصنفین، محققین اور مترجمین میں کوئی فرق نہیں ہے جنھیں ان کے کام کے لیے بہت زیادہ معاوضہ دیا گیا تھا۔
امریکی مورخ ولیم جیمز ڈیورنٹ کے مطابق خلیفہ المامون کے دور میں بیت الحکمہ کی قیمت سونے اور چاندی کے تقریباً دو لاکھ سکوں تک پہنچ گئی تھی۔
محققین کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کے علاوہ امیر لوگ جنھیں علم کا شوق تھا وہ بھی لائبریری کے فنڈ میں رقم دیتے تھے۔
بی بی سی فیوچر کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ہاؤس آف وزڈم‘ یعنی بیت الحکمہ کی وجہ سے دنیا کے مختلف حصوں سے سکالرز، محققین اور سائنس داں بغداد پہنچنے لگے جس کے نتیجے میں کتب خانہ رفتہ رفتہ حصول علم میں دلچسپی کا مرکز بن گیا اور طرح طرح کی کتابوں کا ایک بے مثال مرکز بن گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ آزادی اظہار کی علامت بن گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علما بلا تفریق مذہب و ملت وہاں داخل ہو سکتے تھے اور مطالعہ و تحقیق کی اجازت حاصل کر سکتے تھے۔
نویں صدی کے بعد لائبریری آہستہ آہستہ اکیڈمی بن گئی۔ بیت الحکمہ میں علوم انسانی، ریاضی، طب، کیمیا، جغرافیہ، فلسفہ، ادب اور فن، حتیٰ کہ علم نجوم جیسے مضامین پڑھے جاتے تھے۔
اس کے نتیجے میں، فکری نقطہ نظر سے، مسلم دنیا اپنے سب سے شاندار دور میں پہنچ گئی، جسے ’اسلام کا سنہری دور‘ کہا جاتا ہے۔ اسی دور میں مشہور ریاضی دان محمد بن موسی الخوارزمی نے کتاب الجبر یعنی ’الجبرا‘ لکھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت سے مغربی مفکرین بشمول اطالوی سکالر فبونیکی کو ریاضی کو آگے بڑھانے کی تحریک ملی۔
الخوارزمی کو ریاضی میں ان کی شاندار خدمات کے لیے اکثر ’الجبرا کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔
مسلمان فلسفی الجاحظ کا نام بھی کافی زور و شور سے لیا جاتا ہے جنھوں نے برطانوی سائنسدان چارلس ڈارون سے تقریباً ایک ہزار سال قبل جانوروں کے ارتقاء پر ’کتاب الحیوان‘ لکھی تھی۔ اس کے علاوہ حنین ابن اسحاق، الکندی، المالک، بنو موسیٰ، محمد جعفر ابن موسیٰ، ابن علی، الجزاری وغیرہ جیسے مفکرین کے نام علم کی مختلف شاخوں بشمول طب، طبیعیات، انجینئرنگ، فلکیات میں ان کی خدمات کے لیے یاد کیے جاتے ہیں۔
علم کی دنیا میں ان کی دین کے پس پشت ’بیت الحکمہ‘ کا کردار ہے۔ تاہم اس کردار کس حد تک اس پر بحث کی جاتی رہی ہے جو ہنوز جاری ہے۔
یہ اہم مضمون 18 ستمبر 2024 کو بی بی سی اردو پر شائع ہوا۔ مضمون نگار طارق الزماں شیمول (بی بی سی بنگلہ، ڈھاکہ) کے تحریر کردہ ہے، اور بی بی سی اردو کے خصوصی شکریے کے ساتھ اسے افادہ عام کے لیے افکار پاک پر شائع کیا جا رہا ہے۔