ہم وقت کے ساتھ ضد میں ہیں۔ جب یہ سوچ لیا جائے کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا تو ملک ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہوتے ہیں۔
کون کہتا ہے کہ ہم بدلے ہیں۔ نہ ہم بدلے ہیں، نہ بدل سکتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے؟ نہ جمہوریت ہے، نہ آسکتی ہے۔ نظام ہمارے رویوں کے تابع ہیں اور ہمارے رویے جمہوری ہو ہی نہیں سکتے۔
ملک خواہشات پہ نہیں نظام پہ چلتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیسا ہوتا۔۔۔ پاکستان میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا کہ احتساب کے سب سے بڑے ادارے کے سربراہ پر سنگین الزام لگے ہوں اور احتساب ندارد۔ انتخابات سے عین قبل نیب کا ادارہ جس طرح متحرک ہوا اور جس طرح کا جوڑ توڑ ہوا اُس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ مگر پوچھے کون۔
چند اہم گرفتاریوں پر معاملہ سست روی کا شکار ہوا تو حکومتی اہلکاروں کی جانب سے نیب اور چیئرمین کی ذات کو نشانہ بنایا جانے لگا، یہاں تک کہ وزیراعظم کے غیر سرکاری میڈیا مشیر نے چیئرمین نیب کے خلاف نازیبا ٹیپ تک اپنے چینل پر چلوا دی مگر جھلک دکھلا کر رکوا دیا گیا یوں لاعلم بھی آشنا ہو گئے کہ اصل کھیل کیا ہے۔
چند اہم شخصیات کی عدم گرفتاریوں کی خواہش نہ پوری ہونے کا نتیجہ تو سامنے آ ہی گیا تھا مگر دل ہے کہ ابھی بھرا نہیں۔۔ ابھی ایک اور اہم گرفتاری باقی ہے۔ اب دیکھیے وہ خواہش کب پوری ہوتی ہے۔
یہ ایک صفحے کی حکومت ہے اور ایک صفحے اور ایک تحریر میں تمام سیاست دانوں کا احتساب شامل ہے اور جلد یا بدیر صرف مخصوص جمہوری سوچ کے حامل سیاست دان ہی نہیں ہر شعبے کے افراد پر کیچڑ اچھالا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کیا یہ صرف اسلام آباد کی خواہش ہے تو ایسا بالکل نہیں۔ وقت کے اس دھارے میں صرف چند ماہ ہی تو اہم ہیں۔ اہم فیصلوں تک کیا برا ہے کہ جو کہیں وہ تسلیم کیا جائے۔ ایک صفحے کی اس کہانی کے تمام کردار ایک صفحے پر ہی ہیں، نہیں ہیں تو عوام نہیں۔
تحریر میں لکھا ہے کہ معیشت کا جو حال ہونا ہے ہو، ریاست کی اکائیاں ایک دوسرے سے الگ الگ کھڑی ہوں تو ہوں، نظام شکستہ ہو تو ہو، عوام بے حال ہوں تو ہوں اور عوام کا ریاست سے تعلق کمزور سے کمزور تر ہوتا ہے تو ہو مگر ہمیں مفادات کے صفحے سے نہیں ہٹنا۔
قاضی فائز عیسی اور کے کے آغا دو جج صاحبان ہی نہیں دو نظریوں کا نام ہے۔ اُن کی شخصیات کو نشانہ بنانا اور اُن کے کردار کو متنازع بنانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں جمہوریت اور آمریت کے ٹکراؤ کی تاریخ موجود ہے۔
وکلا تنظیمیں اس معاملے کو نہیں جانے دیں گی مگر کیا یہ تحریک اتنی جاندار ہو گی کہ حکومت کی بنیادیں ہلائے تو بظاہر یہ نہیں دکھائی دیتا کیونکہ ہمارے ہاں انقلاب بھی پنڈی کے راستے ہی جنم لیتے ہیں۔
روزانہ کی بنیادوں پر تنازعات کو جنم دینے اور عوام کو کھیل تماشوں میں مشغول کرنے کی کوشش میں یہ بھلایا جا رہا ہے کہ ریاست اپنے مقصد سے کس حد تک پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اپوزیشن کے پاس آپشنز بھی محدود ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بجٹ تاخیر سے منظور کر ا دے گی، دو ایک احتجاجی ریلیاں نکال لے گی۔
جو ہم آہنگی مریم نواز اور بلاول بھٹو میں پیدا ہوئی تھی اس میں شہباز شریف کا کیا کردار ہو گا اور کیا شہباز شریف بھی اُسی نظریے پر آگے بڑھیں گے اس پر ن لیگ میں اعتماد کا فقدان ہے۔ بہرحال جماعت کی کمان شہباز شریف کے ہاتھ ہے اور شہباز شریف کی۔۔۔!! اس کا فیصلہ حالات سے سامنے آ جائے گا۔
دوسرا آپشن عوامی رابطہ مہم جس کا فی الحال زرداری صاحب کی گرفتاری کے بعد اعلان بلاول بھٹو نے کیا ہے۔۔ احتجاج، جلسے، ریلیاں۔ہاں بلاول شاید کچھ کر لیں گے مگر نتیجہ کیا نکلے گا، جمہوریت بچاؤ تحریک ہو گی یا مصلحت کشی۔
تیسرا آپشن تھوڑا قابل عمل اور موثر ہو سکتا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ کیا چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کیا جائے گا؟
فیصلہ ساز جس طرح مخلصانہ انداز میں کپتان کے ساتھ ہیں اُس کی تعریف کرنا پڑے گی۔ چھ ووٹوں کی حکومت میں سے دو کو دہشت گردی دفعات میں اندر کرا دیا اور یوں سردار اختر مینگل کی اہم عددی حیثیت کو بھی مائنس کر دیا گیا۔
چوتھا اور آخری آپشن کہ اپوزیشن متحد ہو کر قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جائے اس صورت میں عام انتخابات کا اعلان ہو سکتا ہے یا پھر آپ سب دعا کریں کہ معاملہ کسی اور ٹیپ کے منظر عام پر آنے پر ختم نہ ہو۔
کالم نگار معروف صحافی اور ٹی وی اینکر ہیں، کالم نگار سے یہاں پر @asmashirazi رابطہ کیا جاسکتا ہے.
Related Posts
Add A Comment