عام طور پر پاکستان میں انسانی خون کے اندر موجود خلیات یا ذرات کا تذکرہ عام میڈیا اور سوشل میڈیا پر کم ہی ملتا ہے مگر گزشتہ چند دن سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جیل میں طبیعت خراب ہوجانے اور ان کے پلیٹلیٹس کم ہونے کی وجہ سے ہرکوئی ان پر بات کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
لیکن زیادہ تر افراد کو یہ علم نہیں کہ انسانی خون میں موجود انتہائی اہم یہ ذرات کیا ہوتے ہیں اور انسانی صحت میں ان کا کیا کردار ہوتا ہے؟
طبی ماہرین کے مطابق پلیٹلیٹس دراصل انسانی جسم کے خون میں موجود پلیٹ کی شکل کے چھوٹے چھوٹے ذرات یعنی خلیات ہوتے ہیں اور ان کے گرد جھلی بنی ہوئی ہوتی ہے، ان کا کام انسانی خون کے جسم سے انخلا کو روکنا ہوتا ہے۔
یہ خلیات یعنی پلیٹلیٹس خون کے ساتھ ہی گردش کرتے رہتے ہیں اور جسم کے کسی بھی حصے میں زخم ہونے یا چوٹ لگنے کی صورت میں وہ وہاں جمع ہوکر جھلی بنا لیتے ہیں اور خون کو جسم سے باہر آنے سے روکتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق پلیٹلیٹس کی غیر موجودگی یا انتہائی کمی کی وجہ سے انسانی خون دماغ میں جمع ہوجاتا ہے، جس وجہ سے کئی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر خون جسم سے باہر آنا شروع ہوسکتا ہے اور ان کی کمی برین ہیمرج کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق صحت مند انسانی جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک ہوتی ہے اور اس سے ہڈی کا گودا ضرورت کے مطابق خود بخود بنتا رہتا ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کسی انسان میں پلیٹلیٹس کی تعداد 25 ہزار یا کبھی کبھار 10 ہزار تک بھی چلی جائے تو پریشانی کی بات نہیں ہوتی۔
تاہم اگر ان کی تعداد 10 ہزار سے بھی کم ہونے لگے تو انسان کے جسم سے خون کے انخلا کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور ناک سے بھی خون بہنا شروع ہو سکتا ہے۔
پلیٹلیٹس کی کمی بعض انفیکشنز پھیلنے، گردو کی بیماری، جسم کے مدافعتی نظام میں خرابی اور دوائیوں کے ری ایکشن کا سبب بھی بن سکتی ہے اور انسان میں کافی کمزوری بھی ہونے لگتی ہے۔
انسانی جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ’کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ‘ (سی بی سی) نامی خون کا ٹیسٹ کروانا پڑتا ہے جو پاکستان میں عام لیباٹریوں سے 400 سے ایک ہزار روپے تک ہوتا ہے۔
سی بی سی ٹیسٹ کے ذریعے نہ صرف انسانی جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد معلوم ہوجاتی ہے بلکہ اس ٹیسٹ سے انسانی خون میں موجود سرخ اور سفید ذرات سمیت دیگر طرح کے ذرات کا بھی علم ہوجاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پلیٹلیٹس کی تعداد متعدد امراض کی وجہ سے کم ہوسکتی ہے اور ایسے امراض میں ’ڈینگی‘ بخار بھی شامل ہے۔