یہ اختلاف بیزاری کا زمانہ ہے۔ آپ نے جیسے ہی اپنی رائے کا اظہار کیا یا کوئی سوال ہی اٹھایا، سنگ زنی شروع ہو گئی۔ اس رجحان کا تازہ تجربہ ایک دیرینہ رفیقِ کار حمیداللہ عابد کو ہوا ہے۔ حمیداللہ عابد نہایت پڑھے لکھے، محنتی اور لائق صحافی ہیں چونکہ پڑھنے لکھنے کی عادت ہے اور لکیر کے فقیر بھی نہیں ہیں، اس لیے صرف اثبات اور تائید کے خواہشمندوں کے ساتھ ان کی کم ہی بنتی ہے، لہٰذا اب اپنی ہی ذات میں خود انجمن ہیں اور جو بات درست سمجھتے ہیں، کہتے ہوئے برملا پائے جاتے ہیں۔
حال ہی انھوں نے شکوے کے پیرائے میں ایک عجب بات لکھ دی۔ شکوہ تو انھوں نے یہ کیا ہے کہ جماعت اسلامی کے احباب میں اب اختلاف رائے برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ انھوں نے اپنی ذات کے تعلق سے انکشاف کیا ہے کہ جن باتوں پر ان کے دوست لٹھ لے چڑھ دوڑتے ہیں، ایسی ہی باتوں پر امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق انتہائی دل داری کے ساتھ فرماتے ہیں کہ برادر! آپ نے یہ کیسے سوچ لیا، سیاسی نوعیت کے بیانات پر آپ اپنا دل چھوٹا کیوں کرتے ہیں؟
سید وراثت حسنین رضوی کراچی کے ایک بلند پایہ صحافی ہیں جنھوں نے بزرگوں کا زمانہ دیکھ رکھا ہے۔ وراثت صاحب کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جو چلتے پھرتے جونیئر صحافیوں کی تربیت کیا کرتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے۔ بہت برس ہوتے ہیں، کسی سیاست دان کی کہہ مکرنی پر میں پریشان تھا کیونکہ اس کے کچھ چھینٹے میری رپورٹنگ پر بھی پڑ رہے تھے۔ دکھ کی اسی کیفیت میں پریس کلب کے ہال سے نکل کر پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے انھوں نے مجھے پکڑا اور اداسی کا سبب پوچھا، میری بپتا سن کر انھوں نے عادت کے مطابق چہرہ آسمان کی طرف کر کے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا کہ ایسی بات پر پریشانی کیسی؟ پھر ایک واقعہ سنایا۔
انھوں نے بتایا کہ ایک بار مولانا بھاشانی نے کوئی بیان جاری کر دیا۔ بات کچھ ایسی تھی جسے سن کر لوگوں کو حیرت ہوئی اور بے تکلف صحافیوں نے انھیں مشورہ دیا کہ مولانا! یہ بیان آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ مشورہ سننے کے بعد وہ مسکرائے اور واسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ایک کاغذ نکالا اور کہا کہ اگر کچھ نقصان پہنچا تو دوسری جیب میں اِس کی تردید بھی موجود ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بعض سیاست دان عموماً ایسا ہی کیا کرتے ہیں، اس لیے پریشان ہونے کے بجائے خالص پیشہ ورانہ انداز میں نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے رہنا چاہئے۔ حمیداللہ عابد کا انکشاف پڑھ کر برسوں قبل سنا ہوا یہ واقعہ ذہن میں تازہ ہو گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صرف پاکستان نہیں دنیا کے بیشتر خطوں میں سیاست دانوں کا چلن کچھ اسی نوعیت کا ہے لیکن اسی دنیا میں بہت سے ایسے سیاست دان دیکھے گئے ہیں جنھوں نے اس ناپسندیدہ روایت کو مسترد کر کے راست گوئی کو ایسا شعار کیا کہ ان کی کہی ہوئی بات پتھر پر لکیر ہو گئی۔
اس معاملے میں قائد اعظمؒ تو ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی راست بیانی کی گواہی صرف اپنے نہیں غیر بھی دیتے ہیں۔ ہماری سیاسی روایت میں مولانا مودویؒ کا شمار بھی ایسے ہی بزرگوں میں ہوتا ہے جو اپنے قول پر جان کی قربانی کو کچھ ایسا زیاں نہیں جانتے تھے۔ مولانامودودیؒ کو جس بیان پر سزائے موت ہوئی، وکیل کے خیال کے مطابق اس میں بچنے کی گنجائش تھی، اگر وہ کہہ دیتے کہ ان کا بیان اخبار میں توڑ مروڑ کر شائع ہوا ہے، وہ کچھ اور کہنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے وکیل کا یہ مشورہ سنتے ہی مسترد کردیا۔
بات پر قائم رہنے کی روایت صرف ان دو بزرگوں تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستانی سیاست کی روایتی تقسیم یعنی دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسی قسم کا مزاج رکھتی تھی۔ بائیں جانب کے ایسے بزرگوں میں عبدالصمد اچکزئی، باچا خان، حبیب جالب اور ان جیسے بہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ یہ بزرگ جب ایک بار زبان دے دیتے تو پھر اس سے پلٹنے کا سول ہی پیدا نہ ہوتا۔ ہمارے ان بزرگوں کو قول کی تقدیس کا یہ تصور کہاں سے ملا؟ اس کی بنیاد تو وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار بنیں جو عالم گیر حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان کے سامنے اُس ذات والا صفات کا نمونہ بھی موجود تھا جو ایک بار وعدہ کر لیتی تو تین دن تک اسی مقام پر موجود رہتی جہاں موجودگی کا وہ وعدہ کرتی۔
ایک سبق آموز واقعہ جنگ بدر کا بھی ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر کچھ اصحاب جنگ میں شرکت کے لیے آتے ہوئے راستے میں مشرکین مکہ کی گرفت میں آ گئے۔ انھیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ میدان بدر میں پہنچ کر ان اصحاب نے جنگ میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس کی جازت نہ دی اور فرمایا کہ اپنے وعدے پر قائم رہو۔ اسی طرح قسطنطنیہ کے محاصرے کے موقع پر بعض اصحاب کے انفرادی وعدے کا اتنا احترام کیا گیا کہ محاصرہ تک ختم کر دیا گیا۔ صرف اسلامی تاریخ نہیں دنیا کی تاریخ سے ایسی بے شمار روشن مثالیں ہمیں مل سکتی ہیں جن پر عمل کرنے والوں کا نقش آج بھی ہمیں تاریخ کے صفحات پر دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے بزرگوں کے یہی نقش ہائے قدم تھے جسے ہم نے سیاست جانا ا ور سمجھا کہ انسانیت کی بھلائی کا دارو مدار بھی اسی پر ہے لیکن یہ بھی ہمارے لڑکپن کی بات ہے۔ جب یہ سنا کہ سیاست تو جھوٹ کا متبادل ہے، اس کا مطلب دھوکے کے سوا کچھ نہیں جب اپنے گرد و پیش میں ایسی باتیں سننے کو ملیں تو حیرت سے سوچا کہ کیا ایسے لوگوں کا پالا غلط لوگوں سے پڑا ہے یا ان کا تصور سیاست ہی ناقص ہے۔
لڑکپن میں ایسی مثالی باتیں ہی دل کو لگتی ہیں لیکن جب انسان زمانے کے تھپیڑے کھا کر بری بھلی سمجھنے لگتا ہے تو پتہ چلتا ہے، وہ بزرگ جن کے ذکر سے آنکھیں جھک جاتی ہیں، اب خال خال ہی ملتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں وقت کے ساتھ زبان اور کردار میں لچک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے تو لاکھوں ہوتے ہیں، تاریخ کے اوراق میں اوّل تو وہ جگہ حاصل ہی نہیں کر پاتے اگر یہ کرشمہ ہو ہی جائے تو بنی اسرائیل کی مانند، قرآن میں جن کے کرتوتوں کا تذکرہ پڑھتے ہوئے گاہے ہنسی آ جاتی ہے، گاہے غصہ۔
سیاست اور سیاست دانوں کے بارے منفی عوامی تصورات کے پیش نظر چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اپنے چہرے کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے اور اپنے حسن کردار سے تمام تر منفی تاثرات کا خاتمہ کر دیتے تاکہ اس ملک کی سیاست میں مثبت رجحانات فروغ پا تے لیکن بدقسمتی سے ہوا اس کے برعکس۔ عمران خان نے اپنے معروف پینتیس پنکچروں والے بیان کو عدالت میں سیاسی قرار دے کر اس سے برأت کا اظہار کیا، ان کی پیروی میں غلام سرور خان نے بھی یہی چلن اختیار کیا۔ حمیداللہ عابد کے دعوے کے مطابق جناب سراج الحق نے بھی اب ایسی ہی بات کہی ہے مگر اس پر یقین کرنے کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔ سراج الحق جن بزرگوں کے پیروکار ہیں، ان میں ڈاکٹر نذیر احمد نامی ڈیرہ غازی خان کے ایک بے وسیلہ سیاسی کارکن اور ہومیو پیتھک پریکٹشنربھی تھے جنھوں نے مادی وسائل نہ ہونے کے باوجود ایک قبائلی سردار کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور بڑی شان سے کامیاب ہوئے۔
نسل در نسل سرداروں کی راج دہانی میں یہ مہاجر کس طرح عزیز جہاں بن گیا؟ ستر کی دہائی میں اپنے قتل سے چند ہی روز قبل وہ سرگودھا گئے تو میرے والد مرحوم خصوصی طور پر وقت نکال کر ان سے ملنے گئے، اس موقع پر ابتدائی جماعتوں کے ایک طالب علم نے اپنے چھوٹے سے ہاتھ میں تھامی ہوئی ایک آٹو گراف بک ان کی طرف بڑھائی تو اس کھدر پوش نے مسکراتی ہوئی نگاہ اس بچے پر ڈالی پھر کھلے کھلے الفاظ میں لکھا ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ان کے قتل کی خبر آئی تو والد مرحوم نے دکھ کی بے پناہ کیفیت میں اس تحریر پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا کہ دل اور زبان کی اسی رفاقت نے اس شخص کو طاقت بھی عطا کی اور محبوبیت بھی۔ کیا ہمارا یہ عہد اتنا بدقسمتی میں اتنی ترقی کرچکا ہے کہ اب قلندروں نے یہاں سے کوچ کرنے میں عافیت جانی ہے؟