Author: فاروق عادل
حال ہی میں اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے گھر کو درست کرنے کی جو بات کہی ہے، اس پر قومی ہی نہیں عالمی سطح پر بھی توجہ دی گئی ہے اور اس پر بڑے پیمانے پر تبادلہ خیال جاری ہے۔ چند برس قبل پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے اس وقت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں کچھ ایسے ہی موضوعات پر کچھ سفارشات مرتب کی تھیں۔ ان تجاویز اور فوج کے سربراہ کے بیان میں مماثلت کے بارے میں سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے بی…
کیا پاکستان میں سربراہ ریاست یعنی صدرِ پاکستان کا دفتر محض ایک ڈاک خانہ ہے؟ عدالت عالیہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور زبانِ زد خاص و عام ہے۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں سربراہ مملکت کا منصب ’عضوِ معطل‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ عجب نہیں کہ جب ایوانِ صدر کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی جا رہی تھی تو صدر پاکستان کے ذہن میں بھی یہی خیال…
’’اڑے بابا، پھوٹو (فوٹو)سامنے سے بناؤ تو بات بنے نا!‘‘۔ یہ میر حاصل بزنجو تھے ، اس زمانے میں چھوٹے بڑے سب جنھیں حاصل بلوچ کہا کرتے۔ پہلی بار میں نے انھیں (جامعہ کراچی کی) آرٹس لابی اور کانووکیشن گراؤنڈ کے درمیان سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے دیکھا۔ جسم اس وقت بھی مائل بہ فربہی تھا اور وہ دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے جسے اپنے غیر سب کان لگا کر سنا کرتے۔ کسی نے بتایا کہ یہ میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے ہیں۔ تصویر میں کئی چہرے تھے لیکن جانے کیا وجہ تھی کہ بزنجو صاحب کا نام…
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جمعے کے روز کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کچھ دنوں سے علیل تھے اور کراچی کے مقامی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ مصنف و کالم نگار فاروق عادل نے سید منور حسن کی زندگی کے سفر پر نظر ڈالی ہے۔ کراچی میں تازہ وارد ایک نوجوان سید منور حسن کی خدمت میں حاضر ہوا، ٹٹول کر جیب سے ایک رقعہ نکالا اور جھک کر انھیں پیش کر دیا۔ سید صاحب نے دیکھے بغیر اِسے میز پر ڈالا،…
حکومت نے ق لیگ کے تمام مطالبات مان لیے، اختلافات ختم، اگلا الیکشن بھی مل کر لڑنے کا اعلان۔ کہیں مولانا والی امانت میں خیانت تو نہیں ہوگئی ان مذاکرات کی آڑ میں؟ گورنر کو صوبائی کابینہ کے فیصلوں سے آگاہ کرتا رہوںگا، وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر آپ کو وفاقی کابینہ کے فیصلوں سے آگاہ کرکے حساب برابر کرتے رہیںگے۔ جو ہاتھ پھیلاتا ہے دنیا اس پر توجہ نہیں دیتی، شاہ محمود قریشی اٹھارہ انیس ماہ مسلسل ایک ہی طرح کے بیانات دے کر شاید تھک سے گئے ہیں قریشی صاحب! اثاثوں کی تفصیلات جاری، پی ٹی آئی امیر ترین،…
وہ پہلی بار تھی جب میں نے ایک خاص شعور کے ساتھ موزے پہن کر نماز پڑھی اور نغز گو شاعر جناب اظہار الحق کو یاد کیا جو ایک باراسلام آباد میں جناح سپر کی کسی مسجد میں گئے لیکن میل اور بوسے گندھے ہوئے قالین پر نماز پڑھنا ان کے لیے مشکل ہوگیاتھا۔
ہمارے معاشرے میں سیاست اگر گالی کا متبادل ہے اور صحافی بہت بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ وہ چلن بھی ہے جو ان دونوں شعبوں میں اختیار کیا گیا۔ ہم بہت فکر مند ہیں کہ سیاست بے توقیر اور صحافت کی جڑیں کیوں کھوکھلی ہوئی جاتی ہیں؟ یہ فکر مندی بجا لیکن اس فکر کے ساتھ اب ہمیں ایک فکر اور بھی پال لینی چاہئے کہ دراصل یہ ہمارا اپنا ہی چلن ہے جس نے قومی زندگی اور آزادی اظہار کے مقدس حق کی مٹی پلید کر کے معاملات کو یہاں تک پہنچا دیا۔ یہ بحث طویل ہے اوربہت سے چشم کشا پہلو اپنے اندر رکھتی ہے جس پر متوجہ ہوئے بغیر ہمارے آزار کا چارہ ممکن نہیں۔
اردو کے کرشماتی افسانہ نگار انتظار حسین نے یادداشتوں کو ٹٹول کر کہانی بنا دیا تو ان پر ناسٹیلجیا کی پھبتی کسی گئی، خاص طور پر مغربی ادب سے خوشہ چینی کر کے اپنی تہذیب اور تجربے کو بیان کرنے والے ادیبوں نے۔ یہ بحث ہمارے ہاں عشروں چلی۔ جس پر ایسے ایسے خیالات ظہور میں آئے کہ حیرت ہوتی ہے، مثلا اسی ماضی پرستی کو بنیاد بنا کرایک جید صحافی نے جو خود بھی ادب کی وادی سے صحافت کی دنیا میں آئے، یہ سوال کیا کہ کیا آپ کی ماضی پرستی اور ایم کیوایم کی ہجرتی سیاست، سب…
یہ اختلاف بیزاری کا زمانہ ہے۔ آپ نے جیسے ہی اپنی رائے کا اظہار کیا یا کوئی سوال ہی اٹھایا، سنگ زنی شروع ہو گئی۔ اس رجحان کا تازہ تجربہ ایک دیرینہ رفیقِ کار حمیداللہ عابد کو ہوا ہے۔ حمیداللہ عابد نہایت پڑھے لکھے، محنتی اور لائق صحافی ہیں چونکہ پڑھنے لکھنے کی عادت ہے اور لکیر کے فقیر بھی نہیں ہیں، اس لیے صرف اثبات اور تائید کے خواہشمندوں کے ساتھ ان کی کم ہی بنتی ہے، لہٰذا اب اپنی ہی ذات میں خود انجمن ہیں اور جو بات درست سمجھتے ہیں، کہتے ہوئے برملا پائے جاتے ہیں۔ حال…