دنیا کے زیادہ تر افراد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف 2017 میں شروع ہونے والی مہم ’می ٹو‘ سے تو واقف ہیں۔ تاہم دنیا کے اکثر افراد جنوبی کوریا سے شروع ہونے والی منفرد مہم ’فور بی‘ سے ناواقف ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جنوبی کوریا میں ’نہ شادی، نہ بچوں کی پیدائش، نہ جنسی تعلقات، نہ کسی مرد سے محبت‘ کے چار اصولوں پر چلائی جانے والی مہم کو ’فور بی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
’فور بی‘ کا مقصد خواتین کو ’شادی اور بچوں کی پیدائش سے روکنے سمیت کسی مرد سے جنسی تعلقات استوار کرنے اور اس کے ساتھ محبت کرنے سے روکنا‘ ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس مہم کی سربراہی کرنے والی چند معروف خواتین کا دعویٰ ہے کہ جنوبی کوریا کی 4 ہزار خواتین اس مہم کا حصہ ہیں اور وہ ان اصولوں پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مہم ’فور بی‘ کے حوالے سے جنوبی کورین حکام کے پاس کوئی بھی ڈیٹا موجود نہیں ہے، تاہم اس مہم کی تشہیر ایک ’فیمنسٹ‘ یوٹیوب چینل سمیت سوشل میڈیا کے ذریعے کی جا رہی ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان لڑکیاں اس مہم کا حصہ بن رہی ہیں۔
اسی مہم کا حصہ بننے والی 24 سالہ یون جی ہائے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ اس مہم کے چند اچھے مقاصد کی وجہ سے اس کا حصہ بنی ہیں۔
اس مہم کا حصہ بننے والی زیادہ تر خواتین جنوبی کوریا میں بڑھتے میک اپ کاروبار کے بھی خلاف ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ خواتین پر میک اپ کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔
یون جی ہائے کے مطابق جنوبی کورین خواتین سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک تو کم عمر لڑکیوں کی طرح خوبرو و پرکشش دکھائی دیں اور ساتھ ہی بچے بھی پیدا کرتی رہیں۔
ان کے مطابق خواتین سے ہر وقت پرکشش اور خوبصورت رہنے کی توقع رکھنے کی وجہ سے میک اپ کی صنعت بڑھ رہی ہے اور اس سے کئی لڑکیوں کو جذباتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ وہ ’فور بی‘ مہم کے ’نہ شادی، نہ بچے، نہ جنسی تعلقات‘ کے اصولوں کو فالو نہیں کرتیں، تاہم وہ اس مہم کا حصہ ہیں۔
ان کے مطابق ماضی میں ان کے ایک مرد سے تعلقات رہے، تاہم جنوبی کوریا میں لڑکیوں کی بہت ساری نازیبا ویڈیوز لیک ہونے کے بعد انہوں نے اس سے روابط ختم کرلیے، کیوں کہ لیک ہونے والی ویڈیوز خواتین کے مرد دوستوں نے ہی لیک کی تھیں۔
’فور بی‘ مہم کا حصہ بننے والی 24 سالہ یون جی ہائے اکیلی نوجوان لڑکی نہیں ہیں بلکہ اس مہم کا حصہ بننے والی زیادہ تر خواتین کی عمر 40 سال سے کم ہے جن میں سے بہت ساری خواتین کم عمر ہیں۔
اس مہم کا حصہ بننے والی زیادہ تر خواتین اب کسی مرد سے تعلقات کے علاوہ زندگی گزار رہی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے سے بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ’فور بی‘ مہم کے جنوبی کوریا کے خاندانی حالات پر کیا اثرات پڑے ہیں اور اس مہم سے متاثر ہوکر کتنی لڑکیوں نے شادیاں نہیں کی۔
تاہم جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں شرح پیدائش انتہائی کم ہے اور وہاں کی خواتین شادی کے مقابلے کیریئر بنانے کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔
اس مہم کا حصہ بننے والی سیول کی بونی لی کا کہنا تھا کہ وہ تنہائی کی زندگی گزارنے پر انتہائی خوش ہیں، ان میں کسی مرد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوئی جستجو نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کسی شہزادی کی طرح سج کر دلہن بننے کی تمنا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی کچھ خواتین دوستوں کی شادی ہوچکی ہے اور اب وہ بچوں کی پرورش کر رہی ہیں تاہم ماضی کے مقابلے اب ان کی زندگی میں مسائل زیادہ ہوگئے ہیں اور ان کے گھر میں آئے روز جھگڑے ہوتے ہیں۔
بون لی نے شادی اور بچوں کو زندگی میں جھگڑوں سے منسلک کرتے ہوئے بتایا کہ عام طور پر جنوبی کوریا میں لڑکیوں کی تعلیم، قابلیت اور تجربہ شادی کے لیے ضروری نہیں ہوتا اور انہیں ان کی خوبیوں کے باوجود صرف ایک دلہن یا ایک عورت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا میں ’شادی کرنے اور بچوں کی پیدائش‘ کے بائیکاٹ کی مہم ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ سال 2018 میں وہاں شرح پیدائش میں مزید کمی دیکھی گئی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوبی کوریا میں اس وقت ہر خاتون زیادہ سے زیادہ صرف ایک بچے کو پیدا کرنے کی خواہاں ہیں۔
شرح پیدائش کے حوالے سے جنوبی کوریا کا شمار دنیا کے 10 بڑے ممالک میں ہوتا ہے اور حکومت وہاں شرح پیدائش بڑھانے کے لیے سالانہ 60 ارب ڈالر تک خرچ کرتی ہے۔
تاہم اس باوجود جنوبی کوریا میں نہ تو شرح پیدائش میں اضافہ ہو رہا ہے اور نہ ہی وہاں کی خواتین شادی کے لیے فوری طور پر تیار دکھائی دیتی ہیں۔