انسانی حقوق کے ‘ساؤتھ ساؤتھ ہیومن رائٹس فورم‘ کے دو روزہ اجلاس کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین عالمی سطح پر انسانی حقوق کی وہ تعریف متعارف کرانے کی کوشش میں ہے، جس کے تحت وہ سنکیانگ کے ایغور مسلم آبادی کو حراستی کیمپوں میں مقید کرنے اور اظہار رائے کو محدود کرنےکو درست اور جائز قرار دے سکے۔
چینی دارالحکومت بیجنگ میں ‘ساؤتھ ساؤتھ ہیومن رائٹس فورم‘ کا دو روزہ اجلاس رواں ہفتے کے دوران ختم ہو گیا۔ اس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ اس فورم کے مختلف سیشنز میں چینی صدر شی جن پنگ کے انسانی حقوق کے تصور کو بیان کیا گیا ہے۔ اس موقع پر چینی نائب وزیر خارجہ ما ژواوشُو نے واضح کیا کہ دنیا کے ہر ملک کے عوام انسانی حقوق کے ترقیاتی راستے کا تعین کرنے کی مجاز ہيں۔
اس فورم کے موضوعات پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تنقید کی ہے
اس فورم کے انعقاد اور اس میں زیر بحث لائے جانے والے موضوعات پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تنقید کی ہے۔ اس ادارے کے ایک محقق پیٹرک پُون نے ساؤتھ ساؤتھ ہیومن رائٹس فورم کے اجلاس کو چین کی اُس ناکامی سے تعبیر کیا ہے جو اُسے بین الاقوامی معیارات کا احترام نہ کرنے کی صورت میں ملی ہے۔
اس اجلاس میں چین کے علاوہ تین دوسرے ممالک شمالی کوریا، شام اور پاکستان کے مندوبین بھی شریک تھے۔ مبصرین کے مطابق یہ تینوں ممالک انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی دھارے سے ہٹ کر ایک علیحدہ سوچ رکھتے ہیں۔ شمالی کوریا اور شام میں سخت گیر حکومتیں قائم ہیں اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت پر بھی اظہار رائے اور میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
فورم میں شامی صدر بشار الاسد کی خاتون مشیر بثینہ شعبان نے کہا کہ چین ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق کی نئی تعریف کے عمل کو تقویت دے سکتا ہے۔ شعبان نے اپنی تقریر میں مغربی ممالک کے انسانی حقوق کے تصور پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہر ایک مغربی ملک نے اپنے اپنے معیار قائم کر رکھے ہیں۔