سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کے فیصلے میں آئینی ترمیم کی بجائے آسان قانون سازی کا حل پیش کیا ہے اور توسیع کی شق شامل کرنے کا کہا ہے۔ تاہم، حکومت اگر 6؍ ماہ میں مطلوبہ قانون کے حوالے سے قانون سازی کرنے میں ناکام رہتی ہے توایسی صورتحال میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 28؍ مئی 2020ء کو ریٹائر ہو جائیں گے کیونکہ فیصلے میں انہیں 6 ماہ تک تحفظ دیا گیا ہے۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ… اگر وفاقی حکومت اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے مطابق 6؍ ماہ کے اندر ایک جرنیل کی خدمات کے حوالے سے آئینی پٹیشن نمبر 39؍ آف 2019ء -42 کی شرائط اور عہدے کی معیاد کو پارلیمنٹ کے ذریعے مناسب قانون سازی کے تحت ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ایسی صورت میں چیف آف آرمی اسٹاف کے آئینی عہدے کی معیاد کا معاملہ ایسے ہی بغیر نگرانی کے ہمیشہ کیلئے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ یہ ناقابل فہم اور آئینی بے تکا پن ہوگا۔ لہٰذا، وفاقی حکومت کی جانب سے ایسی ناکامی کی صورت میں ایک جرنیل کے اپنے تین سالہ عہدے کی معیاد مکمل ہونے کے بعد ریٹائر ہونے کی روایت، جس کی دلیل اٹارنی جنرل نے بھی دی ہے، برقرار رہے گی تاکہ جنرل باجوہ کے مدت کو اور نتیجتاً چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے ان کے عہدے کی مدت انہیں بطور جرنیل ترقی دیے جانے سے لے کر 29؍ نومبر 2016ء کو آرمی چیف کے عہدے پر تقرر تک ریگولیٹ کیا جا سکے۔ اور صدر مملکت، وزیراعظم کی ایڈوائس پر کسی حاضر سروس جنرل افسر کو نیا آرمی چیف بنائیں گے۔
فیصلے میں مذکورہ بالا پیرا بتاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے مطلوبہ قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں آرمی چیف کے لیے تین سالہ مدت ہوگی اور اس میں کوئی توسیع کی شق نہیں ہونی چاہیے۔ فیصلے کے مندرجہ ذیل پیرا میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کی شق کے حوالے سے حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ سادہ قانون اور قواعد تیار کرے اور آئینی ترمیم کو مسترد کیا گیا ہے۔ ’’قانون میں ایک جرنیل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور عہدے کی معیاد کا کوئی ذکر شامل نہیں۔ ادارہ جاتی روایات کے مطابق ایک جرنیل تین سال کی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ادارہ جاتی روایات قانون کا جائز متبادل نہیں ہیں کہ انہیں آرٹیکل 243؍ کی ذیلی شق نمبر تین کا حصہ بنایا جائے لیکن ایسے کسی قانون کی غیر موجودگی میں اس روایت کو نافذ العمل بنایا جا سکتا ہے تاکہ ایک جرنیل کے عہدے کی معیاد کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے اور چیف آف آرمی اسٹاف کے آئینی عہدے کو فعال بنایا جا سکے۔ تاہم یہ معاملہ قانون کے مطابق قانون ساز ادارے کے ذریعے آئین میں وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق ریگولیٹ کیا جائے۔
ذیل میں وہ پیرا پیش کیے جا رہے ہیں جن کے تحت ماضی میں سروسز چیفس کو دی گئی توسیع کو قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا:… 5) یہ کہ ایک جرنیل کے عہدے کی معیاد اور مزید ایک معیاد دینے کیلئے قانون کی عدم موجودگی کی صورت میں وزارت دفاع کی پیش کردہ سمریاں، جنہیں صدر مملکت، وزیراعظم اور کابینہ نے جنرل باجوہ کے دوبارہ تقرر، توسیع اور اپائنٹمنٹ کیلئے منظور کیا تھا، بے معنی نظر آتی ہیں اور ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ 6) آرمی ریگولیشنز (رولز) کی ریگولیشن نمبر 255؍ اپنی اصل اور ترمیم شدہ حالت میں وفاقی حکومت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی جرنیل کو عہدے میں توسیع دے سکے۔ ریگولیشن میں صرف عارضی بنیادوں پر مختصر وقت کیلئے کسی انتظام کی اجازت ہے وہ بھی اس صورت میں جب عوامی مفاد کی صورت میں ایسا کیا جائے۔ 7) ’’ریٹائرمنٹ‘‘ کے موضوع پر ریگولیشن نمبر 255؍ اور آرمی ریگولیشنز (رولز) کی دیگر ریگولیشنز پاکستان آرمی ایکٹ سے متصادم نظر اتی ہیں کیونکہ پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن نمبر 176؍ میں ’’ریٹائرمنٹ‘‘ کے معاملے کو رولز کے تحت ریگولیٹ کرنے کا ذکر ہے نہ کہ ریگولیشنز کے تحت۔ ریگولیشنز صرف ایسے معاملات کیلئے ہی بنائی جا سکتی ہیں جو رولز کے زمرے میں نہیں آتیں۔