بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون کے تناظر میں ہمارے ہاں یہ سوال ان دنوں دوبارہ اٹھا یا جا رہا ہے کہ آیا دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہند کا عمل درست تھا یا نہیں اور یہ کہ کیا متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن آج کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہ ہوتی؟ یہ سوال وقتا فوقتا موضوع بحث بنتا رہتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایک بڑا حلقہ اس بحث کے دائرے سے ابھی تک باہر نہیں آ سکا کہ تقسیم ہند درست تھی یا غلط اور یہ کانگریس کا منفی رویہ تھا یا انگریز کی سازش۔ چنانچہ کچھ حضرات اب تاریخ کے اس دور کا تجزیہ اس نظر سے کر رہے ہیں کہ سب کچھ کا ذمہ دار بس جناح صاحب کی شخصیت اور ان کی غلطیوں یا ضد بازیوں کو قرار دیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ تقسیم نہ ہوتی تو یہ سارے مسائل بھی نہ ہوتے۔ گویا ان حضرات کے نزدیک تحریک پاکستان اصلا محمد علی جناح کی شخصیت کے بعض غیر معتدل پہلووں اور برطانوی حکومت کی ’’ڈیوائڈ اینڈ رول“ کی پالیسی کا نتیجہ تھی، ورنہ حقیقتا اس کا کوئی سیاسی جواز نہیں تھا۔
تقسیم کے مسئلے پر حتی الامکان معروضیت سے غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کے حامیوں کے موقف میں اس اعتبار سے وزن تھا کہ تقسیم کے سنگین مضمرات ونتائج کا یہ خطہ متحمل نہیں اور اکٹھے رہنا نہ صرف ممکن بلکہ بہتر ہے، چنانچہ قوم پرست علماء نے معاصر تبدیلیوں کے اپنے فہم کی بنیاد پر علی ٰ وجہ البصیرت تقسیم ہند کے مطالبے سے اختلاف کیا اور باقاعدہ یہ مذہبی پوزیشن لی کہ اسلامی ریاست کا قیام ہر طرح کے حالات میں شریعت کا مطالبہ نہیں۔ اس کے بجائے مسلمانوں کے عمومی سیاسی وقومی مفادات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ان کی روشنی میں، ان کے نقطہ نظر سے، یہی بہتر تھا کہ مسلمان متحدہ قومیت کا راستہ اختیار کریں۔
تاہم مسلم لیگ کے اس موقف کے وزن کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ کانگریسی لیڈروں کا رویہ مدبرانہ اور accommodative نہیں، بلکہ مسلم لیگی قیادت کو نیچا دکھانے کا تھا۔ خود کانگریس میں شریک علماء اس پالیسی کو بحیثیت مجموعی خطے کے مفاد میں سمجھتے ہوئے بھی کانگریسی قیادت کے رویے سے شاکی تھے، جیسا کہ گاندھی وغیرہ کے نام رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے (غیر مطبوعہ) خطوط سے واضح ہے۔ (یہ غیر معمولی تاریخی اہمیت کا حامل ذخیرہ فیصل آباد کے مولانا انیس الرحمن لدھیانوی نے مرتب کیا ہے، لیکن غالبا ابھی تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکا)۔ مولانا ابو الکلام آزاد ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں خود لکھتے ہیں کہ میں نے گاندھی کو بہت اصرار سے کہا تھاکہ فلاں فلاں سیاسی مواقع پر آپ نے جناح کو خواہ مخواہ اہمیت دے کر غلطی کی۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مسلم لیگ اپنی موت آپ مر جاتی۔ اب اس سطح کے اکابر کے ہاں اس طرح کے رویے کے بعد یک طرفہ طور پر مسلم لیگ سے شکایت کرنا منصفانہ نہیں لگتا۔
سیاست میں یقیناًغلطیاں بھی ہوتی ہیں اور سیاسی ضرورتوں کے تحت مبالغہ اور بے اعتدالی بھی در آتی ہے جس کی بہت سی مثالیں مسلم لیگی سیاست میں یقیناًملیں گی، لیکن ہندو اکثریت کے غلبے سے مسلم اقلیت کو محسوس ہونے والے خطرات بالکل ہی بے بنیاد اور تخیل کی پیداوار نہیں تھے۔ ان کا وزن تسلیم کیا جانا چاہیے تھا، جیسا کہ کانگریس نے ’’میثاق لکھنو‘‘ کی صورت میں کیا بھی۔ اس کے باوجود مولانا مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے حضرات اپنے مضامین میں صاف صاف یہ فرماتے رہے کہ اقبال اور جناح اور ’’مسلم سیاست‘‘ کے دوسرے راہ نماؤں کے فکر والہام کا ماخذ حکومت برطانیہ ہے جو انھیں ڈیوائیڈ اینڈ رول کی پالیسی کے تحت استعمال کر رہی ہے۔
قائد اعظم کے ہاں اگر کئی حوالوں سے مبینہ طور پر ’’ضد‘‘ اور ’’انا‘‘ کا رویہ دکھائی دیتا ہے تو سیاسی موقف میں لچک کے بہت نمایاں شواہد بھی شروع سے آخر تک ملتے ہیں۔ ۱۹۲۷ء میں کانگریس کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں انھوں نے ’’تجاویز دہلی‘‘ پیش کیں جس میں اب تک کے اپنے بنیادی مطالبے یعنی جداگانہ انتخابات سے دست برداری اختیار کر لی۔ پھر نہرو رپورٹ سامنے آنے کے بعد ابتداء اً تین ترامیم پیش کر کے مفاہمت چاہی تو اس میں بھی جداگانہ انتخابات کا مطالبہ شامل نہیں تھا۔ الگ وطن کا تصور اور مطالبہ سامنے آنے کے بعد سالہا سال تک جناح نے خود کو اس موقف سے بالکل الگ رکھا، حتی کہ ۱۹۴۰ء سے غالباً ایک آدھ سال قبل اقبال کے اس خیال کو ’’غیر عملی‘‘ تک قرار دیا، اور سب سے آخر میں کابینہ مشن پلان سے اتفاق کر کے تو لچک اور مفاہمت کی آخری انتہا تک چلے گئے۔ اس لیے ہماری رائے میں تحریک پاکستان جیسی قبولیت عامہ حاصل کرنے والی سیاسی جدوجہد کی تاریخی تفہیم کلیتا قائد اعظم کے شخصی مزاج کے حوالے سے کرنا ایک غیر حقیقی انداز فکر ہے۔ سیاسی تحریکوں کے تشکیلی عناصر میں تاریخی وسماجی سیاق، سیاسی گروہوں کی تنظیم سے پیدا ہونے والی کشمکش اور سیاسی قائدین کی شخصیت ومزاج، یہ تینوں پہلو شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے کون سا پہلو غلبہ حاصل کر لیتا ہے، یہ چیز البتہ مختلف تحریکوں میں مختلف ہو سکتی ہے، لیکن کسی بھی مقبول عام سیاسی جدوجہد کی توجیہ صرف لیڈر شپ کے شخصی اوصاف کے حوالے سے کرنے اور سیاسی عصبیتوں کی کشمکش نیز تاریخی صورت حال سے پیدا ہونے والے تقاضوں کو نظر انداز کر دینے کو کسی بھی طرح معروضی انداز نظر نہیں کہا جا سکتا۔
بھارتی شہریت کے متنازعہ قانون کے سیاق میں ہمارے ہاں بعض حضرات کی طرف سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ جب اکثریت کی رائے کی بنیاد پر پاکستان میں صدر کے عہدے کو مسلمانوں کے لیے مخصوص قرار دینے یا مثال کے طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور مختلف قانونی پابندیاں عائد کرنے کا جواز ہے تو بھارت میں شہریت کے حق کو مذہبی بنیاد پر طے کرنے پر کیسے اعتراض کیا جا سکتا ہے؟ اس سے ان دوستوں کا مقصد بھارت کی حالیہ قانون سازی کی تائید کرنا نہیں، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ جیسے وہ فیصلہ غلط ہے، اسی طرح ہمارے ہاں کیے گئے اس نوعیت کے فیصلے بھی درست نہیں۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ استدلال واقعاتی اور تاریخی سیاق سے ہٹا ہوا ہے۔ بنیادی نکتہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے، یہ ہے کہ آزادی کے بعد ان دونوں ریاستوں نے اپنی نظریاتی نوعیت متعین کرنی تھی، اور اپنی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق وہ دونوں نے کی۔ انڈیا نے سیکولر جمہوریت کا انتخاب کیا اور پاکستان نے اسلامی جمہوریہ بننے کا فیصلہ کیا۔ جمہوری اصولوں کے مطابق دونوں ریاستیں اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہیں، لیکن جب تک اس اساسی فیصلے کو تبدیل نہیں کرتیں، دونوں اسی کے تحت قانون سازی کرنے کی پابند ہیں۔ اس لیے کسی بھی فیصلے پر سوال اس بنیادی تناظر سے ماورا ہو کر نہیں اٹھایا جا سکتا۔
ہمارے ہاں صدر کے مسلمان ہونے کی شرط اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ ’’اسلامی جمہوریہ“ کی اساس کے تحت کیا گیا ہے اور اس سے بنیادی طور پر ہم آہنگ ہے (گو بعض قانونی تفصیلات پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں)، جبکہ بھارت میں شہریت کے حق کو مذہب کی بنیاد پر محدود کرنے کا فیصلہ سیکولرزم کی اساس سے متصادم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار مذاہب اور قومیتوں کے ملک کو ایک ’’قومی وطن“ بنانے کا سیاسی جواز ہی سیکولرزم کی بنیاد پر پیش کیا گیا تھا۔ اگر ہندوستان کی کچھ طاقتیں اس بنیاد کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو وہ ساتھ ہی اس کے ایک وطن ہونے کا جواز بھی ختم کر دیں گی۔ اس کے بعد صرف طاقت اور زبردستی ہی ہوگی جس کا کوئی سیاسی یا اخلاقی جواز نہیں۔ اس لیے پاکستان میں کیے گئے قانونی فیصلوں اور بھارت کے حالیہ متنازعہ قانون کی نوعیت ایک جیسی نہیں، بلکہ بالکل مختلف ہے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ آئین کی جو اساسات طے کی گئی ہیں، ان کے خلاف قانون نہیں بنانا چاہیے اور اساسات کے مطابق جو قانون بنایا جائے، اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس اصول پر کسی بھی ملک میں جو قانون آئینی اساسات سے متصادم بنایا جائے، اس پر اعتراض کا حق معقول اور آئینی حق ہے۔
جہاں تک ہندوستانی سیاست میں ہندو جارحیت کی تازہ لہر کا تعلق ہے تو تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ’’ہندتوا “ فیکٹر ہندوستانی سیاست کا رخ پیچھے کی جانب موڑنے کے بجائے تنگ نظر ہندو ذہنیت کی گرفت کو مزید کمزور کرنے کا موجب بنے گا۔ ممکن ہے، اس اندازے میں خواہش اور جذبات بھی کارفرما ہوں، لیکن تاریخ کا اب تک کا سفر عمومی طور پر اسی جانب دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ پچھلے دو ہزار سال سے برہمنیت کے چنگل سے نکلنے کی جدوجہد کر رہا ہے اور ہر قدم آگے کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بدھ مت، جین مت، سکھ مت کا ظہور اور خود ہندو مذہب کے اندر اصلاحی تحریکوں کی پیدائش اسی عمل کے مظاہر ہیں۔ داخلی حرکیات کے علاوہ مسلمانوں کی اور پھر استعمار کی آمد نے بھی اس کی رفتار کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
معاشرتی سطح پر انڈیا کی ماڈرنائزیشن اور معاشی سطح پر عالمی سرمایہ داری نظام میں integration بھی اسی سمت میں دباو بڑھانے والے عوامل ہیں۔ سیاسی سطح پر جمہوریت اور سیکولرزم، نظریے اور تصور کی سطح پر عوامی شعور کا ناگزیر حصہ بن چکے ہیں۔ حالیہ متنازعہ قانون سازی پر بھارتی معاشرے کا عمومی ردعمل اس کا واضح اظہار ہے۔ عالمی رائے عامہ بھی دوٹوک انداز میں اپنا موقف دے رہی ہے۔ اس سارے تناظر میں، مجھے یہ امکان بہت کمزور دکھائی دیتا ہے کہ کوئی طبقہ، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو، محض دھونس اور غنڈہ گردی کے زور پر تاریخ کے سفر کو معکوس کر کے دوبارہ ’’برہمنیت “ کے دور کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ دوبارہ عرض ہے کہ ہو سکتا ہے، اس تجزیے میں خواہشات بھی اثرانداز ہو رہی ہوں، لیکن تاریخی شواہد بظاہر اسی کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’ہندتوا “ قوتوں کے جارحانہ ظہور میں شاید کوئی نیا جنم رونما نہیں ہوا، بلکہ یہ تاریخی برہمنیت کی ’’حرکت مذبوحی“ کا نظارہ ہے۔