Author: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

لکھاری گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور المورد کے ساتھ بطور ریسرچ فیلو وابستہ ہیں۔

سیاسی طاقت کسی بھی تہذیبی یا مذہبی روایت کے، تاریخ میں تحفظ اور تسلسل کے لیے بنیادی شرط ہے۔ ہندو نیشنل ازم کے علمبردار احمق نہیں ہیں، وہ مسلمانوں سے زیادہ اس نکتے کے ادراک کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ نکتہ فراموش ہو جائے تو نہ جہاد کا مذہبی حکم قابل فہم رہتا ہے اور نہ مسلمانوں کی فتوحات کا تاریخی عمل۔ علامہ اقبالؒ جیسا عبقری بھی مسلمانوں کی توسیع سلطنت کو ایک نا پسندیدہ انحراف کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں یقیناً‌ تلوار سے اسلام کی اشاعت نہیں ہوئی اور شاہان اسلام نے…

Read More

الشریعہ کے جنوری ۲۰۱۹ء کے شمارے میں دیوبندی روایت کی بعض فکری خصوصیات پر ایک تحریر لکھی تھی۔ اس کی ابتدا میں جو توقع ظاہر کی گئی تھی کہ ’’برصغیر کی مذہبی فکر کے افق پر مستقبل دیدہ کی حد تک قائدانہ کردار دیوبندی طبقے کا ہی ہے’’، اس میں تو اب کئی حوالوں سے تردد محسوس ہوتا ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ تحریر اب بھی بامعنی دکھائی دیتی ہے۔ (صاحبِ مضمون) کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مختصر تبصرے میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ بقا وارتقا اور تنازع للبقاء کی حرکیات کے بغور مطالعہ سے…

Read More

عام اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کے متعلق مولانا فضل الرحمن نے فلسطینی تنظیموں کو درست توجہ دلائی ہے اور امارات کی حکومت کی طرف سے بھی اس پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلامی اخلاقیات جنگ میں غیر مقاتلین کو براہ راست نشانہ بنانے کے عدم جواز کا اصول بہت واضح ہے۔ معروف عرب عالم علامہ یوسف القرضاویؒ کا موقف اس میں کچھ مختلف تھا۔ انھوں نے اس مفہوم کا فتوی دیا تھا کہ اسرائیل کے قضیے میں ان کے عام شہری بھی مقاتل کے حکم میں ہیں، کیونکہ اسرائیل جبری قبضے کے…

Read More

1917 تک یہاں بنیادی طور پر فلسطینی عرب آباد تھے اور کچھ جگہوں پر یہودی بستیاں بھی موجود تھیں۔ یہودیوں کا تناسب کل آبادی میں تقریباً‌ چھ فیصد تھا۔ 1917 میں برطانوی حکومت کی طرف سے اعلان بالفر میں یہ وعدہ کیا گیا کہ اس علاقے کو یہودیوں کا قومی وطن بنایا جائے گا۔ 1948 میں فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا (جس سے قبل پچھلے تیس سال میں بڑے پیمانے پر پوری دنیا سے یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کرنے کا عمل مکمل ہو چکا تھا)۔ فلسطینیوں کو ایک الگ وطن…

Read More

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ کی تعبیر یک رنگ اور متفقہ نہیں ہو سکتی، اس میں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، خصوصاً‌ جب تنازعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہوں۔ تاہم تاریخ کے ایک ایسے فہم کی ضرورت ہوتی ہے جس سے تہذیب کا سفر ماضی کی تاریخی بحثوں میں الجھ کر نہ رہ جائے، بلکہ اس سے کچھ سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذریت اسماعیل کو دیے گئے سیاسی اقتدار کی قیادت کے لیے قریش کی امتیازی حیثیت تو بیان فرمائی تھی، لیکن اپنے خاندان یعنی بنو ہاشم کی کوئی خصوصی…

Read More

نظام حکمرانی کی تنقید کے حوالے سے ہمارے ہاں مختلف زاویے اور بیانیے موجود ہیں۔ ہمارا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ہمارا، سیاسی تنقید کا غالب پیرایہ زمینی سیاسی حقیقتوں سے قطعی طور پر غیر متعلق ہے اور اس کی وجہ تنقید کے صحیح اور متعلق (relevant) فکری وسائل کی کم یابی یا نایابی ہے۔ اس وقت سیاسی تنقید کے جو اسالیب کسی نہ کسی سطح پر ذرائع ابلاغ میں دستیاب ہیں، انھیں ہم حسب ذیل مختلف درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ۱۔ غالب ترین پیرایہ تنقید شخصی حکمرانی، یعنی بادشاہت یا خلافت کے دور سے چلے آنے والے…

Read More

۔1تحریک ط۔ا۔ل۔ب۔ا۔ن اور ا۔ل۔ق۔ا۔ع۔د۔ہ نے پاکستانی ریاست کے خلاف جو بیانیہ پیش کیا تھا اور جس سے ایک پوری نسل متاثر ہوئی، اس کے بنیادی التباس کو نہ سمجھنے بلکہ اس کا شکار ہو جانے کی وجہ سے پوری مذہبی فکر اے پی ایس کے واقعے تک دو ذہنی اور تضاد کا نمونہ بنی رہی اور اپنے گول مول موقف سے دہشت گردی کے بیانیے کو بالواسطہ تائید مہیا کرتی رہی۔ بیانیہ بڑا واضح اور جذباتی لحاظ سے بہت طاقتور تھا: ایک کافر ملک نے ایک مسلمان ملک پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے شرعا” جہاد فرض ہو…

Read More

میں سماجی نفسیات اور منطق واستدلال کے اصولوں سے تھوڑی بہت دلچسپی کی وجہ سے غور کرتا رہتا ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی پر سیاسی تنقید کن بنیادوں پر کی جا رہی ہے اور وہ کیوں خان صاحب اور ان کے ہمدردوں اور سپورٹرز کو اپیل نہیں کرتی۔ اس تنقید کا غالباً‌ سب سے نمایاں پہلو خان صاحب کے قول وفعل کا تضاد یا دوہرے اخلاقی یا سیاسی معیارات ہیں۔ یعنی وہ جن بنیادوں پر مخالفین پر تنقید کرتے ہیں، خود انھی کاموں کو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کئی…

Read More

کراچی میں ایک مسجد کے انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ حکم قومی سطح پر زیربحث ہے اور اس کی موزونیت یا غیر موزونیت پر مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں کسی خاص مقدمے کے اطلاقی پہلووں سے قطع نظر کرتے ہوئے، اصولی طور پر یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی مساجد کا فقہی حکم کیا ہے ۔ چونکہ عموماً‌ اس حوالے سے جو فقہی موقف اور استدلال سامنے آ رہا ہے، وہ ادھورا اور فقہ وشریعت کی درست اور مکمل ترجمانی نہیں کرتا، اس…

Read More

برادرم فرنود عالم نے Dw کے لیے لکھے گئے ایک کالم میں گزشتہ ایک صدی میں متشدد مذہبیت کا بیانیہ بننے کے عمل کی کچھ جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی۔ مختلف زاویوں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود ہمارے نزدیک یہ کام اس صورت حال کے صحیح تجزیے کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ hindsight کے اس عمل کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں دو مزید زاویے، اختلاف کی گنجائش رکھتے ہوئے، ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔ ایک زاویہ ہندو قوم پرستوں، خصوصا آریہ سماج کا ہے جو غازی علم دین کے قضیے میں مسلمانوں کو "شہ” دینے کے…

Read More