Author: ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

لکھاری معروف علمی و تحقیقی مجلہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے مدیر ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ کی تعبیر یک رنگ اور متفقہ نہیں ہو سکتی، اس میں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، خصوصاً‌ جب تنازعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہوں۔ تاہم تاریخ کے ایک ایسے فہم کی ضرورت ہوتی ہے جس سے تہذیب کا سفر ماضی کی تاریخی بحثوں میں الجھ کر نہ رہ جائے، بلکہ اس سے کچھ سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذریت اسماعیل کو دیے گئے سیاسی اقتدار کی قیادت کے لیے قریش کی امتیازی حیثیت تو بیان فرمائی تھی، لیکن اپنے خاندان یعنی بنو ہاشم کی کوئی خصوصی…

Read More

نظام حکمرانی کی تنقید کے حوالے سے ہمارے ہاں مختلف زاویے اور بیانیے موجود ہیں۔ ہمارا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ہمارا، سیاسی تنقید کا غالب پیرایہ زمینی سیاسی حقیقتوں سے قطعی طور پر غیر متعلق ہے اور اس کی وجہ تنقید کے صحیح اور متعلق (relevant) فکری وسائل کی کم یابی یا نایابی ہے۔ اس وقت سیاسی تنقید کے جو اسالیب کسی نہ کسی سطح پر ذرائع ابلاغ میں دستیاب ہیں، انھیں ہم حسب ذیل مختلف درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ۱۔ غالب ترین پیرایہ تنقید شخصی حکمرانی، یعنی بادشاہت یا خلافت کے دور سے چلے آنے والے…

Read More

۔1تحریک ط۔ا۔ل۔ب۔ا۔ن اور ا۔ل۔ق۔ا۔ع۔د۔ہ نے پاکستانی ریاست کے خلاف جو بیانیہ پیش کیا تھا اور جس سے ایک پوری نسل متاثر ہوئی، اس کے بنیادی التباس کو نہ سمجھنے بلکہ اس کا شکار ہو جانے کی وجہ سے پوری مذہبی فکر اے پی ایس کے واقعے تک دو ذہنی اور تضاد کا نمونہ بنی رہی اور اپنے گول مول موقف سے دہشت گردی کے بیانیے کو بالواسطہ تائید مہیا کرتی رہی۔ بیانیہ بڑا واضح اور جذباتی لحاظ سے بہت طاقتور تھا: ایک کافر ملک نے ایک مسلمان ملک پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے شرعا” جہاد فرض ہو…

Read More

میں سماجی نفسیات اور منطق واستدلال کے اصولوں سے تھوڑی بہت دلچسپی کی وجہ سے غور کرتا رہتا ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی پر سیاسی تنقید کن بنیادوں پر کی جا رہی ہے اور وہ کیوں خان صاحب اور ان کے ہمدردوں اور سپورٹرز کو اپیل نہیں کرتی۔ اس تنقید کا غالباً‌ سب سے نمایاں پہلو خان صاحب کے قول وفعل کا تضاد یا دوہرے اخلاقی یا سیاسی معیارات ہیں۔ یعنی وہ جن بنیادوں پر مخالفین پر تنقید کرتے ہیں، خود انھی کاموں کو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کئی…

Read More

کراچی میں ایک مسجد کے انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ حکم قومی سطح پر زیربحث ہے اور اس کی موزونیت یا غیر موزونیت پر مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں کسی خاص مقدمے کے اطلاقی پہلووں سے قطع نظر کرتے ہوئے، اصولی طور پر یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی مساجد کا فقہی حکم کیا ہے ۔ چونکہ عموماً‌ اس حوالے سے جو فقہی موقف اور استدلال سامنے آ رہا ہے، وہ ادھورا اور فقہ وشریعت کی درست اور مکمل ترجمانی نہیں کرتا، اس…

Read More

برادرم فرنود عالم نے Dw کے لیے لکھے گئے ایک کالم میں گزشتہ ایک صدی میں متشدد مذہبیت کا بیانیہ بننے کے عمل کی کچھ جھلکیاں دکھانے کی کوشش کی۔ مختلف زاویوں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود ہمارے نزدیک یہ کام اس صورت حال کے صحیح تجزیے کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ hindsight کے اس عمل کو مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں دو مزید زاویے، اختلاف کی گنجائش رکھتے ہوئے، ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔ فرنود عالم/ DW ایک زاویہ ہندو قوم پرستوں، خصوصا آریہ سماج کا ہے جو غازی علم دین کے قضیے میں مسلمانوں کو…

Read More

خلافت سے ملوکیت کی طرف انتقال کی بحث مولانا مودودی ؒ کی کتاب کے بعد ہمارے ہاں ایک مستقل موضوع ہے۔ حال ہی میں جناب جاوید احمد غامدی نے اس پر اپنا تفصیلی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ اس تناظر میں مولانا عمار خان ناصر نے اپنی فیس بک وال پر ایک تجزیہ پیش کیا ہے،جسے ان کے شکریہ کے ساتھ اہل علم کے ملاحظہ کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ) حضرت معاویہ کے، انتقال اقتدار کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ملوکیت کو اختیار کر لینے کی یہ توجیہ کہ ان کے پاس معروضی حالات…

Read More

اس پروگرام کی ابتدا 2016 کے آخر اور 2017 کے اوائل میں ڈاکٹر ابراہیم موسی نے کی جو بنیادی طور پر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی دینی تعلیم ہندوستان کے بعض بڑے مدارس جیسے دار العلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء میں ہوئی۔ اب وہ تقریبا ربع صدی سے امریکی جامعات میں ہیں اور تعلیم و تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ پروگرام ان کے دوست، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سیکریٹری مولانا امین عثمانی صاحب (جن کا گزشتہ سال انتقال ہو چکا ہے) کی باہمی مشاورت بلکہ بقول ڈاکٹر ابراہیم موسی، مولانا امین عثمانی صاحب…

Read More

عالمِ شہود کے ساتھ ایک عالمِ غیب کا وجود اور ان کے باہمی تعلق کی نوعیت کا سوال انسانی شعور کے لیے ایک غیر فانی سوال کے طور پر ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کو جن گہرے اور پیچیدہ سوالات کا سامنا ہے، عالم شہود ان کا جواب فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہے، اور خود عالم شہود اور اس کے مختلف مظاہر کی تفہیم وتوجیہ کے لیے انسانی شعور کو مابعد الطبیعیاتی تصورات اور ان پر مبنی ایک نظام وجود کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اساطیری مذاہب میں متھالوجی، مبنی…

Read More

حریفانہ کشاکش سیاست واقتدار کا جزو لاینفک ہے اور تضادات کے باہمی تعامل سے ہی سیاسی عمل آگے بڑھتا ہے۔ برطانوی استعمار نے اپنی ضرورتوں کے تحت برصغیر میں جہاں پبلک انفراسٹرکچر، تعلیم عامہ، ابلاغ عامہ، بیوروکریسی اور منظم فوج جیسی تبدیلیاں متعارف کروائیں، وہیں نمائندگی کا سیاسی اصول بھی متعارف کروایا۔ یہ پورا مجموعہ کچھ داخلی تضادات پر مشتمل تھا جس نے نئی سیاسی حرکیات کو جنم دیا۔ چنانچہ تعلیم، ابلاغ عامہ اور نمائندگی کے باہمی اشتراک سے استعمار کے خلاف مزاحمت کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر استعمار کو یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ تقسیم کے بعد پاکستانی…

Read More