امریکا نے جمعرات (9 جنوری) کو ہونے والے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بیان ایک امریکی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دیا۔
واضح رہے کہ 3 جنوری کو امریکا نے ایک حملے میں ایران کے اہم ترین فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کو قتل کردیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی تھی اور اب امریکا کی جانب سے یہ ردعمل سامنے آیا ہے۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ’ہیڈکوارٹرز ایگریمنٹ‘ ایکٹ 1947 کے تحت امریکا عمومی طور پر غیر ملکی سفیروں کو اقوامِ متحدہ تک رسائی دینے کا پابند ہے۔
تاہم واشنگٹن کا موقف ہے کہ وہ ’سلامتی، دہشت گردی اور امور خارجہ‘ کی وجوہات پر ویزے کا اجرا روک سکتا ہے۔
دوسری جانب حالیہ پیش رفت پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے فوری طور پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
اقوامِ متحدہ میں موجود ایرانی مشن نے کہا کہ ’ہم نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں لیکن وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ویزے سے متعلق نہ تو امریکا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کی جانب سے کوئی باضابطہ رابطہ کی گیا۔
اقوامِ متحدہ کی ترجمان اسٹیفن دوجارک نے بھی امریکا کی جانب سے جواد طریف کو ویزا نہ دینے کے معاملے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
جواد ظریف اقوامِ متحدہ کے منشور کی پاسداری کے عنوان سے جمعرات کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے خواہشمند تھے۔
یہ اجلاس اور اس میں شرکت کے لیے جواد ظریف کے سفر کی منصوبہ بندی واشنگٹن اور تہران کے درمیان حالیہ تنازع سے قبل کی گئی تھی۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر سرِ عام امریکا پر تنقید کر کے جواد ظریف عالمی توجہ کا مرکز بن سکتے تھے۔
اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے قاسم سلیمانی کے قتل کو ’ریاستی دہشت گردی کی واضح مثال، مجرمانہ فعل، بین الاقوامی قانون بالخصوص اقوامِ متحدہ کے منشور کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب‘ قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ آخری مرتبہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک گئے تھے بعدازں امریکا نے ’ایران کے سپریم لیڈر کے جارحانہ ایجنڈے‘ پر عملدرآمد کی وجہ سے پابندی عائد کردی تھی۔
اس پابندی کے تحت جواد ظریف کے امریکا میں موجود اثاثوں، املاک اور مفادات بلاک کردیے گئے تھے تاہم ان کے مطابق ان کے پاس کچھ نہیں۔
قبل ازیں جواد ظریف نے گزشتہ برس اپریل اور جولائی میں بھی اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں میں شرکت کی تھی، جولائی کے دورے کے دوران امریکا نے ان پر اور اقومِ متحدہ میں موجود ایرانی مشن کے دیگر سفیروں پر سخت سفری پابندیاں عائد کردی تھیں اور انہیں نیویارک شہر کے ایک حصے تک محدود کردیا تھا۔
امریکی سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو سے پیر کے روز گفتگو کی۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن اورٹاگس نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں نے مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات پر تبادلہ خیال کیا اور مائیک پومپیو نے انتونیو گوتریس کی سفارتی کوششوں کو سراہا۔
امریکا-ایران کشیدگی میں اضافہ
خیال رہے کہ 3 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔
قاسم سلیمانی کے ہلاکت کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے قاسم سلیمانی کو مزاحمت کا عالمی چہرہ قرار دیا تھا اور ملک میں 3روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔
اسی روز امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو بہت پہلے ہی قتل کر دینا چاہیے تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ قاسم سلیمانی سے ‘بہت سال پہلے ہی نمٹ لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ بہت سے لوگوں کو مارنے کی سازش کر رہے تھے لیکن وہ پکڑے گئے’۔
علاوہ ازیں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ بغداد میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی کمانڈر کی ہلاکت کا مقصد ایک ‘انتہائی حملے’ کو روکنا تھا جس سے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو خطرہ لاحق تھا۔
دوسری جانب ایران نے گزشتہ روز عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل ایران میں امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جمکران مسجد کے گنبد پر سرخ پرچم لہرایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ قدیم ایرانی تہذیب میں سرخ پرچم لہرنے کا مقصد ‘جنگ یا جنگ کی تیاری’ سمجھا جاتا تھا۔