ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی اپنے اقتدار پر گرفت آہستہ آہستہ کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ رجب طیب اردوآن 2003ء میں اقتدار میں آئے، تو انہیں ابتدائی طور پر ایک آزاد خیال اصلاح پسند سمجھا گیا جو ترکی کو یورپ کے قریب لانا چاہتا تھا۔ لیکن بعض حلقوں نےتب بھی متنبہ کیا کہ وہ "بھیڑوں کے لباس میں بھیڑیا” ہیں اور وقت آنے پر وہ جمہوری اقدار کو پامال کریں گے۔
ڈی ڈبلیو کی دانیل دیریا کے مطابق ناقدین کے شبہات صحیح ثابت ہوئے۔ اردوآن جلد ہی جمہوریت کی ٹرین سے اُتر گئے اور انہیں جیسے ہی موقع ملا انہوں نے فوج اور عدلیہ سے اپنے مخالفین کو چلتاکیا۔ اُس کے بعد سے وہ ایک مختلف راہ پر چل پڑے۔ ان کا راستہ ترکی کو سلطنت عثمانیہ کے دور کی طرف پیچھے کو لے گیا۔
اردوآن ملک کو ماضی میں دھکیل رہے ہیں
جب سے اردوآن نے ترکی کی سیاست کو ماضی کی طرف لے جانا شروع کیا انہیں کسی بھی طرف سے مخالفت کا سامنا نہ رہا اور انہوں نے بڑی مہارت سے ایک ایک کر کے اپنے راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور کیا۔
گیزی پارک کے عوامی مظاہرے ہوں، بدعنوانی کے اسکینڈل یا فوجی بغاوت کی کوششیں، وہ تمام رکاوٹیں عبور کرکے آگے بڑھتے رہے۔
جون 2018ء میں انہوں نے ایک صدارتی نظام متعارف کرایا جس نے انہیں ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے خصوصی اختیارات فراہم کیے اور بالآخر ”فرد واحد کی حکمرانی وجود میں آ گئی۔‘‘ آج یہ سلطان ہزار کمروں پر مشتمل ایک نئے محل میں مسند نشیں ہیں۔
ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش بھی ناکام رہی تھی ایردوآن کے دور میں
معاشی بحران کے خاتمے کا آغاز
اردوآن کی طاقت 2018ء کے موسم گرما سے اس وقت کمزور ہونا شروع ہوئی جب ان کی اقتصادی بدانتظامی کا اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے۔ انہوں نے تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا تھا اور اس کے ذریعے اقربا پروری کے نظام کو مضبوط کیا۔ اس کے نتیجے میں ترکی کی معیشت بحران کا شکار ہوتی گئی۔ نوجوانوں میں بے روزگاری ریکارڈ حد تک بڑھ گئی جبکہ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا۔
مارچ کے مہینے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایردوآن کو اپنی غلط پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ چند اہم ترین شہروں میں انہیں ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ انتخابات میں استنبول کی شکست ان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی کیونکہ یہ شہر نہ صرف سیاسی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ ترکی کا اقتصادی مرکز بھی ہے جس کا ایک اپنا بجٹ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ترکی میں جس کے ہاتھ سے استنبول نکل گیا اُس کے لیے ملک پر حکومت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے اردوآن کسی صورت حالات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو دباؤ ڈالا کہ وہ استنبول میں دوبارہ الیکشن کرائے۔ لیکن ایسا کر کے بھی ایردوآن کو کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
اس الیکشن میں ان کے مخالف اکرام امام اُگلو جیت گئے۔ وہ سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان ہیں اور اب انہیں ترکی کی سیاست کے ابھرتے نئے ستارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ اس نئے سیاسی لیڈر کی عوامی مقبولیت اردوآن کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔
بیرونی اور اندرونی دباؤ
اردوآن پر الزام ہے کہ انہوں نے ترک قوم کو تقسیم کیا۔ لیکن اب ان کی گرتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر حزب اختلاف کی مختلف جماعتیں اپنے تمام سیاسی اختلافات کے باوجود پہلی بار اردوآن کے خلاف صف بستہ ہو چکی ہیں۔
ایردوآن کی اپنی صفوں میں بھی کھلبی نظر آتی ہے۔ تقریبا دس لاکھ ممبران پہلے ہی ان کی جماعت اے کے پی چھوڑ چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم احمد داؤد اؤگلو ، سابق وزیر خزانہ علی باباکان یا سابق صدر عبداللہ گل جیسے ان کے پرانے ساتھی اپنی اپنی نئی جماعتیں بنا رہے ہیں۔ خیال ہے کہ یہ لوگ ایردوآن کے روایتی ووٹ کو تقسیم کریں گے۔
ایردوآن نے اپنے مضبوط ارادوں کے ساتھ 16 برس ترکی پر حاکمیت کی اور ایک طاقتور سلطان کے طور پر ابھرے۔ تاہم 2019 ء کے واقعات نے بظاہر سیاسی ہوا کا رخ بدل دیا ہے۔
2023 ء میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور جدید ترکی کے قیام کو ایک صدی مکمل ہوگی۔ ایردوآن کا خواب ہے کہ وہ اس سال ”نوعثمانی دور‘‘ کی رہنمائی کرتے ہوئے اس کا آغاز کریں۔ تاہم اردوآن کا یہ خواب پورا ہونے سے بس کچھ ہی پہلے ان کا اقتدار ڈگمگاتا نظر آ رہا ہے اور اب شاید رجب طیب اردوآن کا خواب پورا نہ ہو پائے۔
دانیل دیریا ڈی ڈبلیو کے لیے لکھتی ہیں۔ ان کا یہ تبصرہ ڈی ڈبلیو اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔