آج کی تاریخ میں وہ ہو جائے گا جس نے پاکستان کی سیاست کو ایک نیا موڑ دینا ہے۔ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کوئی معنی رکھتی ہے نہ ہی توسیع سے کوئی نقصان ہے، یہ تو طے تھا سو ہو رہا ہے۔۔۔ مگر تنقید اُس ‘طریقہ کار’ پر ہے جس کا رونا کئی لوگ اب تک رو چکے، وہ اعتراض کہ جس کا شکوہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔
بلآخر وہ ہو گیا۔۔۔ایک ایسا این آر او جس میں مزاحمت سے پہلے مفاہمت، وہ پسپائی جو بغیر جنگ کے حصے میں آئی اور ایک ایسی شکست جو کبھی فتح سے ہمکنار ہو نا پائی۔
لندن میں کیا ہوا؟ خواجہ آصف کو خط کس نے کب لکھا؟ شاہد خاقان عباسی خواجہ آصف سے نالاں کیوں ہوئے؟ کس نے کیسا اور کتنے میں سودا کیا؟ خواجہ آصف کو پارلیمانی راہنما کے طور استعفے دینے سے کس لیے روکا گیا؟
ن لیگ میں آئی دراڑ کو کون ختم کرے گا؟ بد اعتمادی کی فضا کسی نئی گروپنگ کو جنم دے گی یا نہیں؟ یہ سب سوالات اپنی جگہ صورتحال کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ن لیگ کی اعلی قیادت یہ ٹھان چکی ہے کہ اُسے گیم کو اپنے حق میں بدلنا ہے۔ بادشاہ پیادے کے کردار میں آنے کی کوشش میں اور حاکم اپنی پوزیشن کی تلاش میں ہے۔
ہر کوئی اپنے لیے شخصی قانون سازی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اپنا اپنا آئین تراشنے کی یہ کوشش شخصی آمریت کو جنم دے سکتی ہے بلکہ دے چکی ہے۔ فرد واحد کے گرد گھومتی قانون کی شقیں اپنے ہی ضابطوں اور قاعدوں کا مذاق اڑا رہی ہیں اور پھر بھی جمہوریت کا راگ الاپتی سیاسی جماعتیں بذات خود آمریت کو جنم دے رہی ہیں۔
ناظرین کھیل دلچسپ نہیں انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ میچ میں بظاہر ہر کھلاڑی دوسرے کو ٹف ٹائم دینے کے ارادے سے رنگ میں اُتر رہا ہے۔ کھیل کے قاعدے اور ضابطے تیار کرنے والے ریفری البتہ اس بار خود کھلاڑی ہیں جن کے لیے وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔
ایسے میں ڈیڑھ سال کی آزمائشوں سے گزرنے والی ن لیگ عین اس وقت رنگ میں سرنڈر کر گئی جب گنوانے کے لیے کچھ نہ تھا بلکہ دوسری جانب کے کھلاڑی کا سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے۔
فہم و فراست میں چھپی موقع پرستی، پسپائی میں چھپی سیاسی سوجھ بوجھ اور انقلاب میں لپٹی بے بسی محض فریب ہے اور اب کی بار یہ فریب بیچ بازار بکا ہے۔
دلچسپ سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے میں حاصل کیا ہو گا؟ کیا کوئی ان ہاؤس تبدیلی کی شنوائی ہے؟ پنجاب میں حکمرانی کا ادھورا خواب؟
نئے انتخابات کی نوید یا چھ ماہ بعد کا کوئی اور ڈراونا خواب؟ ن نے کھویا اور پایا کیا؟ کس وعدے، کس بھرتے اور کس آسرے پر بنا دیکھے، بنا سوچے، بنا سمجھے بیانیے کی تدفین کی کچھ وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔
بغیر پڑھے ترمیم کی حمایت دو ہی صورتوں میں ممکن ہے کہ یا تو اقتدار کا لالچ ہو یا مقدمات کا خاتمہ اور تیسری صورت میں دشمن کو دیوار سے لگانا۔ اب پہلی صورت یا تو عدم اعتماد کے ذریعے پوری ہو سکتی ہے جس کے لیے اپوزیشن میں اعتماد کی کمی ہے۔۔۔ یا پھر حکومت کے اتحادیوں کا الگ ہونا جس پر پنجاب میں رابطے جاری ہیں۔
البتہ کہنے والے کہتے ہیں کہ جب کپتان ہر اُمید پر پورا اُتر رہا ہے، ہر خدمت سر انجام دی جا رہی ہے، خارجہ پالیسی ہو یا معیشت، داخلہ کے معاملات ہوں یا مقننہ کے، یہاں کہا ‘ہو جا’ تو ہو جاتا ہے تو پھر گھوڑا بدلنے کی کیا ضرورت؟
پھر بھی ن لیگ کی تابعداری دیکھیے۔۔۔ پارلیمنٹ کے افتخار کی قسم بوٹ پالش کرنے کی اصطلاح مجھے انتہائی نا مناسب لگتی ہے لہذا میں اس سے اجتناب کرنا چاہتی ہوں۔
اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ بل میں موجود چند متنازع شقوں پر صرف پیپلز پارٹی نے ترامیم جمع کرائی ہیں جن میں وزیراعظم کو پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کو سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجوہات ریکارڈ کرانا، ایکسٹیشن دینا مگر دوبارہ تعیناتی نا کرنا۔۔۔ اور عدالت میں چیلنج نہ کرنے کی شق ختم کرنا شامل ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اس پر پیپلز پارٹی کی ہم آواز ہوتی ہے یا نہیں۔
بھرے ایوان میں اس اہم قانون سازی کی مخالفت صرف چند قوم پرست جماعتیں، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ہی کر رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ شریک نہ ہونے سے جو پیغام جائے گا اُس کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا۔
اس اہم قانون سازی نے جہاں جمہوری سیاسی جماعتوں کا پول کھولا وہیں طاقت کے ہر مرکز کو اُنھی سے بات کرنے پر مجبور کیا جن کے بارے میں چند ماہ پہلے تک یہ بیانیہ دیا جا رہا تھا کہ یہ بدعنوان عناصر ہیں اور ان سے حساب لیا جائے گا۔ لیکن داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔
بیانیہ صرف ن لیگ کا نہیں بدلا بلکہ طاقتوروں کا بھی بدلا ہے۔ تنقید صرف اپوزیشن پر ہی نہیں با اختیار حلقوں پر بھی ہو رہی ہے۔
اپنی پوزیشن سے صرف بدعنوان سیاست دان ہی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ وہ بھی ہٹے ہیں جنھیں اپنے سوا کوئی اور کچھ نظر نہیں آتا۔ جناب! تنقید جس پر بھی ہو، جو بھی ہو، گھوم کر ہدف تنقید آپ ہی بنے تو اندازہ لگا لیجیے کہ نیا بیانیہ جنم لے چکا۔۔۔ آپ کو سب مل جائے گا مگر کس قیمت پر؟