1979 کا سال بیسویں صدی کی اسلامی تاریخ میں ایک بھیانک سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس سال میں تین ایسے اہم واقعات ہوئے جن کے منفی اثرات سے مسلم دنیا آج تک باہر نہیں آسکی۔ اس سلسلے کا سب سے اہم واقعہ ایرانی انقلاب کا ظہور پذیر ہونا ہے جس کے نتیجے میں مسلم دنیا ایک ایسی فرقہ ورانہ کشمکش سے دوچار ہوئی جس سے پیچھا چھڑانا ناممکن نہیں تو مُشکل ضرور ہے۔
اس انقلاب سے سنی دنیا میں ایک ایسا اضطراب پیدا ہوا جس کی لہریں مراکش سے انڈونیشیا تک محسوس کی گئیں۔ اس اضطراب کی اہم ترین مثال جہیمن العتیبی کی قیادت میں ایک انتہا پسند گروہ کا اسی سال تقریبا دو ہفتے کے لیے بیت اللہ شریف پر قبضہ تھا۔ یہ گروہ سعودی عرب میں ایرانی طرز کا سنی انقلاب لا کر شاید یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اہل تشیع کی طرح اہل سنت میں بھی انقلاب کی چنگاری موجود ہے۔ یہ کوشش تو ناکام بنادی گئی لیکن اس کوشش کے نتیجے میں سعودی علماء نہایت طاقتور ہو گئے اور انہوں نے شاہی خاندان سے بہت سے مطالبات منوائے۔ سعودیہ میں علماء کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کو ایرانی انقلاب کے سیاق وسباق میں دیکھنا ضروری ہے۔ اگر ایران میں انقلاب نہ آتا تو شاید بیت اللہ پر قبضے کا واقعہ بھی پیش نہ آتا۔ اسی طرح پاکستان میں شیعہ۔سنی کشمکش خاص کر سپاہ صحابہ کا قیام ایرانی انقلاب کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔1980 کی دہائی میں ایران-عراق جنگ بھی اسی انقلاب کا شاخسانہ تھی کیونکہ سنی دنیا ایران کی انقلاب برآمدگی سے خوفزدہ تھی اور نتیجتا عراق۔ایران جنگ نے ایرانی انقلاب کو اپنی حدود میں رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ تیسرا اہم واقعہ رُوس کی افغانستان پر چڑھائی تھی۔ شاید روس کو یہ شہ بھی ایران میں ایک ایسی حکومت کے قیام کے بعد ہوئی جو امریکہ مخالف تھی۔ افغان جہاد کے نتیجے میں سنی دنیا میں امریکی منشا ومرضی سے عسکریت پسندی کا ایک ایسا سیلاب آیا جس سے مسلم دنیا کے کئی ممالک لہو لہان ہو گئے۔
ایرانی انقلاب سے دنیا ایک ایسی شیعیت سے متعارف ہوئی جیسی اس سے کئی صدیاں پہلے صفوی خاندان کی حکومت کی صورت میں ایران میں نافذ کی گئی تھی۔ اس وقت بھی صفویوں نے ترکوں کی پیٹھ میں ایسے خنجر گھونپے تھے کہ ترک یورپی محاذوں کو چھوڑ کر اپنے پچھواڑے میں صفویوں سے نبردآزما ہوئے اور یورپ کی مہمیں اسی وجہ سے دم توڑ گئیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں اسی طرز کی شیعیت مغرب کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی اور امریکہ اور اس کے اتحادی اس کی آڑ میں عربوں کو خوب لُوٹ رہے ہیں۔
سنی اور شیعہ کو میز پر بیٹھ کر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی طرح اپنے مسائل کا حل باہمی بات چیت سے نکالنا ہو گا تاکہ کوئی تیسری پارٹی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔