اقوام متحدہ کے زیر انتظام پابندیوں سے متعلق کمیٹی نے اپنی ایک خفیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی عرب میں آرامکو تنصیبات پر حملہ حوثیوں نے نہیں کیا ،،، اور حملے میں استعمال ہونے والے میزائل اور طیاروں کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ یمن کے راستے ان تنصیبات تک پہنچ سکیں۔ لہذا یہ انکشاف سعودی عرب ، امریکا اور یورپ کے ان الزمات کو تقویت دیتا ہے کہ گذشتہ برس 14 ستمبر کو ابقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی آرامکو کی تنصیبات پر حملے کی ذمے داری تہران پر عائد ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین کی رپورٹ کے مطابق حوثیوں کی جانب سے دعوے کے باوجود آرامکو تنصیبات پر حملے حوثیوں نے نہیں کیے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے نتائج ایسے قت میں سامنے آئے ہیں جب خطے میں کشیدگی کی شدت اپنے عروج پر ہے۔ تناؤ کی شدت نے بغداد میں امریکی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جنم لیا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ابقیق اور خریص کے علاقے مملکت کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں واقع ہیں۔ یہ مملکت کے جنوب میں واقع نہیں کہ جس کی بنیاد پر یہ سمجھا جائے کہ میزائل اور ڈرون طیارے یمنی اراضی سے داغے گئے۔
مذکورہ رپورٹ کو عالمی سلامتی کونسل میں 27 دسمبر کو پیش کیا گیا تھا تاہم اسے بعد ازاں کچھ روز بعد شائع کیا گیا۔
رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ حوثی فورسز کو مسلسل عسکری سپورٹ حاصل ہو رہی ہے۔ یہ سپورٹ رائفلوں، راکٹ گرینیڈز اور ٹینک شکن میزائلوں کے علاوہ جدید ترین کروز میزائل کے نظام کی صورت میں فراہم کی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں بعض ہتھیاروں کی خصوصیات ایران میں تیار کردہ اسلحے کی ٹکنالوجی سے ملتی جلتی ہیں۔