بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل اور پھر انتقام لینے سے متعلق ایرانی بیانات کے بعد پوری دنیا سہم گئی تھی کہ ایک اور جنگ ہونے کو ہے۔
ایران جنرل سلیمانی کی تدفین تک کسی بھی جوابی ردِعمل کی تیاری کرتا رہا اور پھر جنرل سلیمانی کی تدفین سے کچھ پہلے ایران نے عراق میں 2 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں سے ہونے والے نقصان سے متعلق پوری دنیا کئی گھنٹوں تک اندازے لگاتی رہی۔ لیکن دوسری طرف ایران کا سرکاری میڈیا بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتا رہا اور پھر پاسدارانِ انقلاب نے 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعوٰی کردیا۔
ایرانی حملے کے بعد امریکی صدر نے ’آل از ویل‘ کا ٹویٹ کیا اور دنیا کو انتظار کرنے کا کہا۔ ایرانی دعوؤں کے بعد سب کو امریکی صدر کے خطاب کا انتظار تھا تاکہ پتہ چل سکے کہ ایران کے دعوؤں میں کس حد تک سچائی ہے؟ اگرچہ آل از ویل کے پیغام کے بعد ہی پتہ چل گیا تھا کہ امریکیوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور وہ مطمئن ہیں۔
پھر صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بھی ایرانی دعوؤں کی تردید کردی اور اسی خطاب میں کئی متضاد باتیں کیں۔ صدر ٹرمپ نے ایک طرف تو ایران کو دھمکی دی کہ امریکا کے میزائل اس کے میزائلوں سے بڑے ہیں، دوسری طرف داعش کے خلاف مل کر کام کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ وہ ایران کا شاندار مستقبل چاہتے ہیں، جس کے ایرانی حقدار بھی ہیں۔
اسی خطاب میں صدر ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیوں کا بھی اعلان کیا اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب کون سا شعبہ ایسا ہے جس پر پابندیوں کی گنجائش باقی ہے۔ ایران کی قدرتی گیس کی برآمدات ہی ان پابندیوں سے کچھ بچی ہوئی ہیں لیکن اس پر پابندی کا مطلب امریکی اتحادی ترکی کو مشکل میں ڈالنا ہے۔
امریکی صدر کے خطاب کے بعد اس تاثر کو تقویت ملی کہ ایران امریکی فوجی اڈوں پر حملوں میں نقصان اور ہلاکتیں نہیں چاہتا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ ایران نے یہ میزائل حملے امریکا کو سبق سکھانے کے لیے نہیں بلکہ ایرانی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کیے جبکہ بین الاقوامی برادری کو کچھ اور بتایا اور دکھایا جا رہا ہے۔
ایران نے عراق میں 2 ایسے فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے لیے چنا جہاں وسیع رقبہ خالی پڑا ہے اور امریکی فوجیوں کے بنکرز اور بیرکس کے سامنے کھلے میدان ہیں۔ ان میدانوں میں آدھی رات کے بعد گرنے والے راکٹ کسی بھی فرد کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔
ایران نے حملے سے پہلے عراقی وزیرِاعظم کو ’زبانی پیغام‘ بھی بھیجا تھا۔ عراقی وزیرِاعظم کا کہنا ہے کہ اطلاع ملتے ہی انہوں نے عراقی فوج کو محتاط رہنے کی ہدایت کردی تھی۔ اب یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا عراقی وزیرِاعظم کو بھیجا گیا پیغام امریکیوں تک نہیں پہنچا ہوگا؟
امریکی اخبار یو ایس اے ٹوڈے نے سیکیورٹی حکام کے حوالے سے خبر دی کہ حملے کا علم تھا اور امریکی فوجیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات بھی کرلیے گئے تھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے حملے کے نتیجے میں ہلاکتیں نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ امریکی ریڈار سسٹم نے کامیابی کے ساتھ پہلے ہی اطلاع دے دی تھی۔
اس حملے کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ایرانی عوام کو کیا کہتے ہیں، یہ صرف اندرونی پیغام ہے۔ بیرونی دنیا کے لیے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہہ دیا کہ ایران نے جوابی کارروائی کرلی، اب ایران مزید کارروائی بھی نہیں چاہتا اور جنگ بھی نہیں چاہتا۔
عراق پر کنٹرول اور مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم کو چیلنج کرنے کے لیے ایران ہمیشہ جوا کھیلتا رہا ہے، تاہم حالیہ واقعات میں جنرل قاسم اور ایرانی حکام نے عراق میں جوا کھیلتے ہوئے صدر ٹرمپ کے بارے میں اندازے کی غلطی کی۔
ان کا خیال تھا کہ امریکی صدر براہِ راست لڑائی کی طرف نہیں جائیں گے، کیونکہ صدر ٹرمپ کا دعویٰ تھا کہ وہ امریکا کو نہ ختم ہونے والی جنگوں سے نکالنے آئے ہیں، اور پھر سعودی آرامکو پر حملوں کے بعد امریکی ردِعمل سے ایرانیوں میں یہ سوچ مزید پختہ ہوئی اور وہ جوئے میں داؤ بڑھاتے چلے گئے۔
بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے جواب میں امریکی صدر نے جنرل سلیمانی کے قتل کا حکم دیا۔ ایران نے جنرل قاسم کو کھونے کے بعد بہت زیادہ احتیاط سے کام لیا اور اس بار صدر ٹرمپ کو آزمانے کا جوا نہیں کھیلا۔
موجودہ صورتحال اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہے کہ ایران اس کارروائی کے بعد اپنی سرزمین سے امریکی اڈوں اور مفادات پر براہِ راست حملے نہیں کرے گا بلکہ وہ اب ایک بار پھر اس کھیل کو پرانے طریقے پر لائے گا اور اپنی پراکسی گیم کھیلے گا۔
ایران کے میزائل حملوں کے بعد عراقی ملیشیا وصائب اہل الحق کے کمانڈر قیس خز علی نے ٹویٹر پر کھلی دھمکی دی کہ ایران نے ابتدائی ردِعمل دے دیا، اب عراق کی باری ہے اور عراق کا ردِعمل ایران سے کم نہیں ہوگا۔ قیس خز علی کی اس ٹوئیٹ کے بعد ان کا اکاؤنٹ معطل کردیا گیا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ وضائب الحق حشد الشعبی کا ہی حصہ ہے۔
ایران نے امریکا کو خطے سے نکالنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے اسے عراق، شام، لبنان، یمن میں اپنے حمایت یافتہ گروپوں کو استعمال کرنا پڑے گا۔ سلیمانی کے قتل کے بعد ایران کے پراکسی گروپ بھی سنبھل نہیں پائے اور انہیں سنبھلنے میں مزید کچھ وقت لگے گا۔
ایران کا عراق پر کنٹرول اب چیلنج ہوگیا ہے۔ عراقی وزیرِاعظم اگر ایران کے ساتھ کھڑے نظر آئے تو عراق کے صدر اور اسپیکر کے بیانات امریکی پلڑے میں رکھے دکھائی دیے۔ عراقی صدر اور اسپیکر نے ایرانی حملے کی مذمت کی اور دونوں ملکوں کی لڑائی کے لیے عراق کو میدان جنگ نہ بننے دینے اور عراقی خودمختاری کے تحفظ کی بات کی ہے۔ اس لیے ایران اب جو بھی جوابی کارروائی کرے گا اس کا دھیان اس پر ضرور رہے گا کہ جنگ اس کی سرزمین تک نہ پہنچے۔
جنرل سلیمانی کے قتل پر صدر ٹرمپ کو امریکا کے اندر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ایران کے ملٹری ہیرو جنرل سلیمانی اور داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے قتل کے اقدامات سے ٹرمپ کو اپنے ووٹ بڑھنے کی امید ہوگی لیکن کیا ایران کی پراکسی وار میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں روکنے کا کوئی منصوبہ ٹرمپ کے پاس ہے؟
کیا عراق سے فوجی انخلا کا حکم نامہ، جس پر بعد میں وضاحت کرنا پڑی کہ خط اصلی ہے لیکن بھجوایا غلطی سے گیا، صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکی فوجیوں کو خطرے سے نکالنے کی ایک کوشش تھی؟
ایرانی میزائل حملوں کے بعد ایک اور دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوئی اور کویتی وزیرِ دفاع کا بیان کویت کی سرکاری خبر ایجنسی پر جاری ہوا۔ اس بیان میں کویتی وزیرِ دفاع نے کہا کہ انہیں کویت کے عریفجان کیمپ کے امریکی کمانڈر کا خط ملا ہے جس میں انہیں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج 3 دن کے اندر کویت سے نکل رہی ہے۔
یہ صورتِ حال اس لیے بھی دلچسپ تھی کہ برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی عراق سے دستے نکال کر کویت کے اس محفوظ کیمپ میں بھجوا رہے تھے اور کویتی وزیرِ دفاع کے لیے یہ خط یقیناً اچنبھے کا باعث ہونا چاہیے تھا۔ بعد میں اس خط کی ایک وضاحت سامنے آئی کہ کویت کی سرکاری خبر ایجنسی ہیک ہوگئی تھی اور اس پر جھوٹی خبر چلائی گئی تھی۔
کویت کی سرکاری خبر ایجنسی ہیک ہوئی یا نہیں، اس سے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ اس جنگ میں سائبر وار فیئر کا استعمال شروع ہوچکا ہے اور اسی طرح کا کوئی سائبر حملہ خطے میں کشیدگی کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔
سائبر وار فیئر اور نیوز ایجنسی کی ہیکنگ کا ایک واقعہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان مقاطعہ کا سبب بن چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا ایران کی نسبت بہت بڑی فوجی طاقت ہے لیکن ایران نے انقلاب کے بعد سے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی خلا، چند لمحوں کی ہچکچاہٹ اور معمولی سی غلطی سے بھی فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور دوسرے کی کسی بھی معمولی غلطی اور فیصلے کی کجی سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہیں گے۔
خطے میں امریکا کے بڑے اتحادی سعودی عرب نے بھی جنگ مخالف مؤقف اپنایا اور سعودی وزیرِ دفاع خالد بن سلمان پیر کے روز واشنگٹن میں تحمل کی تلقین کرتے پائے گئے۔ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ انور قرقاش نے بھی ٹویٹر پر فوری جنگ بندی کی اپیل کی اور مسئلے کے حل کے لیے سیاسی راستہ اپنانے کی بات کی۔
عراق میں امریکی فورسز کے لیے بڑا خطرہ اس کی اتحادی عراقی فورسز بھی ہیں۔ عراق کی فورسز کا حشد الشعبی سمیت کئی شیعہ ملیشیاز کے ساتھ اتحاد ہے، اور قاسم سلیمانی کے ساتھ قتل ہونے والے ابومہدی المہندس عراقی حکومت کے مشیر اور حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر تھے۔ عراقی وزیرِ داخلہ کا تعلق ایران نواز بدر تنظیم سے ہے۔ امریکی فوجی اڈے عراقی فورسز کی سیکیورٹی میں ہیں اور ان میں ایران نواز ملیشیا کے ارکان بھی شامل ہیں۔
امریکی افواج کو ان سائیڈر (اندرونی) حملوں کا بھی سامنا ہوسکتا ہے جیسے افغانستان میں ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ایسا کوئی بڑا ان سائیڈر حملہ صدر ٹرمپ پر عراق سے انخلا کے لیے دباؤ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
کیا تیسری عالمی جنگ ممکن ہے؟
جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد تیسری عالمی جنگ کے خطرات بیان کرنے والے تجزیہ نگار اس قتل کو آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ (Archduke Franz Ferdinand) کے قتل جیسا واقعہ سمجھتے ہیں۔ 28 جون 1914ء کو سراجیوو میں سرب قوم پرست گیوریلو پرنسپ (Gavrilo Princip) نے آسٹریا کے ولی عہد فرانز فرڈیننڈ اور ان کی اہلیہ سوفی کو قتل کردیا جس کے بعد یکے بعد دیگرے واقعات رونما ہوئے اور یوں صرف 6 ہفتوں کے اندر اندر تقریباً تمام یورپ جنگ میں کود پڑا۔
جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد تیسری عالمی جنگ کی بات ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ روس اور چین کی مداخلت کے بغیر تیسری عالمی جنگ چھڑنے کا تصور نہیں۔ چین جنگ میں کودنے کی بجائے جنگ کو روکنے میں کردار ادا کرے گا۔
چین کا کیا کردار ہوگا؟
جنرل سلیمانی کا قتل ایسے وقت میں ہوا جب روس، چین اور ایران نے آبنائے ہرمز کے قریب بحرہند اور خلیج اومان میں مشترکہ بحری مشقیں کیں۔ ایران نے اپنے ممکنہ ردِعمل سے پہلے چین کے ساتھ مشورہ ضرور کیا ہوگا کہ چین کے نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ جنرل قاسم کے قتل کے بعد تہران میں موجود تھے۔
مستحکم مشرق وسطیٰ چین کے مفاد میں ہے اور چین مشرق وسطیٰ کے نقشے میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا۔ چین مشرق وسطیٰ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری چاہتا ہے، اور ان مفادات کی خاطر چین خطے میں سیکیورٹی کردار ادا کرنے کو تیار ہوگا۔
چین کے وزیرِ خارجہ نے امریکا کے فوجی مس ایڈونچر کی مذمت بھی کی ہے۔ چین کی خطے میں جنگ روکنے کی کوشش بیجنگ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مددگار ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ ایسا کرنے سے خطے میں امریکا کے ان اتحادیوں پر بھی چین کا اثر بڑھے گا جو امریکا کے ناقابلِ اعتماد رویے کا شکار ہیں۔
چین امریکا کی طرح دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر مداخلت کی بجائے کاروبار اور ترقی پر زور دیتا ہے جو اسے دوسرے ملکوں کے لیے زیادہ قابلِ قبول بناتا ہے۔ چین دنیا کے معاملات سے لاتعلق رہنے کی پالیسی ترک کرچکا ہے، اور اب وہ کئی ممالک کو اسلحہ بھی فروخت کر رہا ہے۔ چین درحقیقت ترقی پذیر دنیا کے لیے سب سے بڑا مالیاتی ذریعہ بن چکا ہے۔ قرن افریقا، وسطی ایشیا اور بحیرہ جنوبی چین میں اس کے فوجی اڈے بن چکے ہیں۔ چین کا ریاستی سرپرستی میں ترقیاتی ماڈل عرب دنیا کے آمروں کے لیے پسندیدہ ہے۔
روس کیا کرے گا؟
تیسری عالمی جنگ کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مقابل روس کا جنگ میں کودنا ضروری ہے۔ روس شام اور ایران کا اتحادی ہونے کے باوجود خود کو اعلانیہ ایران کا اتحادی کہلوانے سے گریر کرتا آیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن مشرق وسطیٰ میں خود کو ایک ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ایران کے ساتھ اتحاد کے باوجود روسی صدر ایران کے سب سے بڑے حریف اسرائیل اور ایران کے ساتھ مفادات کا ٹکراؤ رکھنے والے ترکی کے ساتھ بھی تعاون کرتے آئے ہیں۔
ایران کی جوابی کارروائی اور اس کے ردِعمل میں حالات قابو سے باہر ہونے کی صورت میں روس کو اپنی پالیسی اور پوزیشن میں تبدیلیوں کی ضرورت پڑے گی۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان پراکسی جنگ کی صورت میں اسرائیل نے شام پر حملے شروع کیے تو روس کی افواج اور مفادات خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صدر پیوٹن اسی مہینے اسرائیل جا رہے ہیں اور اس دورے کا مقصد شام کو اس تصادم سے دُور رکھنا ہوگا۔
روس نے خطے میں جیو اسٹریٹجک توازن برقرار رکھنے کے لیے شام میں مداخلت کی تھی، لیکن ایران امریکا تصادم کی صورت میں یہ توازن بگڑنے کا خطرہ ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے صدر پیوٹن کو یورپی لیڈروں کی بھی ضرورت پڑے گی، یہی وجہ ہے کہ صدر پیوٹن نے فرانسیسی صدر سے فون پر بات چیت کی اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل کو دورہ کی دعوت دی۔ اس دورے میں بھی ایران ایجنڈے میں سرِفہرست ہوگا۔
ایران اور امریکا کی اگر مکمل جنگ ہوگئی تو صدر پیوٹن زیادہ مشکل میں پڑجائیں گے اور شام میں انہیں اپنے اڈے بچانے کے لیے شام میں امریکا مخالف صدر اسد کو برقرار رکھنے کے لیے زور لگانا پڑے گا یا پھر ایسے سیٹ اپ کے لیے کوشش کرنا پڑے گی جو امریکا نواز نہ ہو۔
اس صورت میں صدر پیوٹن کو ترک صدر طیب اردوان کا تعاون درکار ہوگا کیونکہ ترکی ہی اس خطے میں ایسا اہم کھلاڑی ہے جو امریکا کا مضبوط اتحادی نہیں ہے۔ صدر پیوٹن ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے شام کے صدر بشارالاسد سے ملاقات کے بعد ترکی پہنچے۔ شام کی خانہ جنگی میں ترکی اور روس 2 مخالف کیمپوں میں تھے تاہم پیوٹن اور اردوان مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کا مظاہرہ پہلے بھی اس وقت ہوچکا ہے جب ترکی نے شام کے اندر کردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔
شام میں صدر پیوٹن کا پلان بی، ترک صدر کا تعاون حاصل کرنا، شام کے صدر بشارالاسد کے لیے نیک شگون نہیں ہوگا۔ ترک صدر ہر صورت یہ چاہیں گے کہ بشارالاسد حکومت ختم ہوجائے اور اگر ایران کی شام کے صدر کے لیے حمایت اور مدد کمزور پڑتی ہے تو صدر پیوٹن کے لیے بھی ترک صدر کے ساتھ اتفاق کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ ان حالات میں شام کے صدر بشارالاسد چاہیں گے کہ ایران ایسا کچھ نہ کرے جس سے خطے میں اتحاد اور طاقت کا توازن بدل جائے۔