جدید عرب دنیا میں سب سے طویل عرصے تک برسر اقتدار رہنے والے رہنما اور عمان کے سلطان قابوس 79 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
رائل کورٹ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ’انتہائی دکھ اور شدید رنج کے ساتھ رائل کورٹ عزت مآب سلطان قابوس کا سوگ منا رہا ہے جو جمعے کو انتقال کرگئے اور ان کے جانشین کے حوالے سے بات چیت جاری ہے‘۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سلطان قابوس 1970میں اس وقت سے برسر اقتدار تھے جب محل میں ایک بغاوت کے نتیجے میں انہوں نے اپنے والد کو معزول کردیا تھا۔
واضح رہے کہ سلطان قابوس بڑی آنت کے کینسر کے باعث کافی عرصے سے بیمار تھے۔
عمان کی سرکاری خبررساں ادارے نے سلطان کی موت کی وجہ کا اعلان نہیں کیا لیکن وہ طویل عرصے سے علیل تھے اور ایک ماہ قبل ہی بیلجیئم میں زیر علاج رہ کر وطن واپس لوٹے تھے۔
ان کے سوگواران میں کوئی جانشین شامل نہیں کیوں کہ وہ غیر شادی شدہ تھے جبکہ نہ تو ان کے کوئی بچے تھے اور نہ ہی کوئی بھائی تھا۔
یہ واضح نہیں کہ سلطان قابوس کی جگہ کون سنبھالنے گا کیونکہ ان کے ملک میں اگلا حکمران منتخب کرنے کا الگ ہی طریقہ کار ہے۔
جانشینی کا معاملہ
عمانی آئین کے مطابق سلطان کی جگہ خالی ہونے کے 3 روز کے اندر شاہی خاندان جانشین مقرر کرے گا۔
اور اگر شاہی خاندان کسی نام پر متفق نہ ہوسکا تو سلطان قابوس نے شاہی خاندان کے نام اپنے خط میں جس شخص کو منتخب کیا ہوگا وہ اقتدار سنبھالے گا۔
حکمرانی کے لیے سلطان شاہی خاندان کا فرد ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان، بردبار، حقیقت پسند اور عمانی مسلمان والدین کی جائز اولاد ہونا چاہیئے‘۔
مقامی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس معیار پر 80 افراد پورا اترتے ہیں لیکن ایک نام سامنے آتا ہے جو اسد بن طارق کا ہے۔
اسد بن طارق کو 2017 میں بین الاقوامی تعلقات اور تعاون کے امور کے لیے نائب وزیراعظم بنایا گیا تھا۔
اس اقدام کو سال 2000 سے نمائندہ خصوصی، سلطان کے کزن کے لیے حمایت کا واضح پیغام سمجھا جارہا تھا۔
دیگر ممکنہ جانشینوں میں 65 سالہ وزیر ثقافت و ورثہ، ھیثم بن طارق اور 63 سالہ شہاب بن طارق شامل ہیں جو سلطان کے قریبی مشیر تھے۔
اعتدال پسند ثالث
سلطان قابوس نے ایک اعتدال پسند لیکن فعال خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر جزیرہ نما عرب کو پسماندہ سے جدید ریاست میں ڈھالا۔
سعودی سربراہی میں قائم گلف تعاون کونسل میں اپنی رکنیت محفوط بناتے ہوئے انہوں نے عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں اپنا کردار ادا کیا اور عمان ایک بہترین ثالث کے طور پر سامنے آیا۔
سلطان قابوس کی وفات ایسے وقت میں ہوئی کہ جب تہران اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی عروج پر ہے جس میں عراق میں ایرانی جنرل کی ہلاکت کے جوابی حملے کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ پر نئی پابندی لگادی گئیں۔
دیگر عرب ممالک کی طرح سلطان قابوس نے 1979 میں مصر کے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کی مخالفت نہیں کی تھی انہوں نے نوے کی دہائی کے وسط میں تل ابیب میں تجارتی دفتر بھی کھولا تھا جسے 2000 میں فلسطینی جدوجہد میں تیزی آنے پر بند کردیا تھا۔
بعدازاں سال 2018 میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے عمان کا اچانک دورہ کر کے سلطان قابوس سے بات چیت بھی کی تھی۔
یہ واضح نہیں کہ کیا عمان کے اگلے حکمران بھی ایک ایسے خطے میں کہ جو اکثر ہنگامہ خیزی کا شکار رہتا ہے وہی اعتدال پسند روش اختیار کریں گے یا نہیں۔
پاکستان نے اپنا دوست کھودیا، وزیراعظم
سلطان قابوس کے انتقال پر وزیراعظم نے دلی رنج اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے عمان کی عوام سے تعزیت کا اظہار کیا۔
سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’انکی رحلت سےاومان نےاپناعزیز قائد کھویاتوپاکستان ایک بااعتمادقریبی دوست سےمحروم ہوگیا۔‘
وزیراعظم کا اپنے پیغام میں مزید کہنا تھا کہ ’وہ ایک دانا شخصیت تھے جنہوں نے عمان کو جدیدریاست کی صورت میں ڈھالا‘۔