ایران کی جانب سے غیر ارادی طور پر یوکرین کے طیارے کو نشانہ بنانے کے اعتراف کے بعد یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی نے تہران واقعے کے ذمہ داران کو سزا دینے اور معاوضہ ادا کرنے کا مطالبہ کردیا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی ‘ کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے صدر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ ‘‘ ہم ایران کی جانب سے قصور واروں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کی توقع کرتے ہیں۔
اس طرح کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹریڈو نے بھی کہا ہے کہ احتساب کی ضرورت ہے۔
انہوں نے شفافیت اور طیارہ حادثے کے متاثرین کے لواحقین کے لیے انصاف کا مطالبہ بھی کیا جن میں اکثر کینیڈا کی دہری شہریت کے حامل تھے۔
جسٹن ٹروڈو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ ایک قومی المیہ ہے اور تمام کینیڈین شہری ایک ساتھ مل کر اس پر غم کا اظہار کررہے ہیں۔
روس نے بھی ایران کی جانب سے طیارہ مار گرانے کے واقعے کا اعتراف کیا، اس حوالے سے روسی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ایران کو اس سے لازمی’ سبق سیکھنا‘ چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’ اگر بلیک باکسز کی ڈیکرپشن اور تحقیقات سے ثبوت نہیں ملتا کہ ایرانی فوج نے یہ دانستہ طور پر کیا اور اس کی کوئی منطقی وجوہات نہیں ہیں تو اسے بند کردینا چاہیے‘۔
روسی خبر ایجنسی انٹرفیکس کے مطابق کونسٹینٹن کوساشیف نے کہا کہ امید ہے کہ اس سے سبق سیکھے جائیں گے اور تمام فریقین کی جانب سے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
خیال رہے کہ ایران نے یوکرین کا طیارہ مار گرانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ارادی طور پر ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے طیارے کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی فوج نے سرکاری نشریاتی ادارے پر جاری بیان میں کہا تھا کہ رواں ہفتے کے آغاز میں تباہ ہونے والا یوکرینی طیارہ پاسداران انقلاب سے وابستہ حساس ملٹری سائٹ کے قریب پرواز کررہا تھا اور اسے انسانی غلطی کی وجہ سے غیر ارادی طور پر نشانہ بنایا گیا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ذمہ دار فریقین کو فوج کے اندر جوڈیشل ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے گا اور ان کا احتساب ہوگا۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں تصدیق کی تھی کہ ’مسلح افواج کی اندرونی تحقیقات سے یہ نتیجہ نکلا کہ افسوسناک طور پر انسانی غلطی وجہ سے داغے گئے میزائلز کے نتیجے میں یوکرین کا طیارہ تباہ ہوا اور 176 معصوم افراد ہلاک ہوئے‘۔
حسن روحانی نے کہا تھا کہ ’اس المیے اور ناقابل معافی غلطی کی نشاندہی اور قانونی چارہ جوئی کے لیے تحقیقات جاری ہیں‘۔
واضح رہے کہ 3 جنوری کو امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے تھے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
جس کے بعد 8 جنوری کو ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور 80 امریکی ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
جس کے کچھ گھنٹے بعد اسی روز تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے والا یوکرین کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ حادثے کے بعد عالمی رہنماؤں نے طیارہ حادثے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران پر طیارے کی تباہی کا الزام عائد کیا تھا۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ طیارہ ایران کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے تباہ ہوا جبکہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے آسٹریلین ہم منصب اسکاٹ موریسن نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے تھے۔