حال ہی میں ابو ظہبی میں ہندو مذہب کا مندر تعمیر کیا گیا ہے، امارات کی حکومت نے اس سلسلے میں بھرپور تعاون کیا اور بقیہ ریاستوں میں مزید مندر بنانے کی حامی بھی بھری ہے۔ غامدی سنٹر آف اسلامک لرننگ، امریکا کے ڈائریکٹر جناب محمد الیاس نے اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر درج ذیل تحریر میں واضح کیا ہے۔
جزیرہ نما عرب یا صرف حجاز
اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم کے ذریعے جن دو علاقوں کا اپنی توحید کے مراکز کے طور پرانتخاب کیا تھا ،ان میں سے ایک جزیزہ نما عرب ہے ،جہاں سیدنا ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کیا تھا،اور دوسرا کنعان ہے,جہاں پہلے اسحاق اور پھر سیدیا یعقوب علیھم السّلام مامور ہوئے،جنھیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔
ساتویں صدی عیسویں میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کو سرزمین عرب میں بھیجا گیا تو آپ کو صریحا ہدایت کی گئی کہ وہ زمین جو خدا کی توحید کے لیے خاص ہے،اس میں اب دین پورا کا پورا صرف اللہ ہی کا ہو جانا چاہیے۔ (و قاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنۃ و یکون الدین کُلُہ للہ،سورہ انفال/ ۳۹)
رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدایت پر پوری طرح عمل کیا اور یہی ہدایت صحابہ کوبھی کی ۔
آپ کا ارشاد ہے:
أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ، وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ
(مسند احمد ،رقم ۱۶۹۳)
حجاز کے یہودیوں اور اہل نجران ( نصاری ) کو جزیرہ نما عرب سے نکال باہر کرو۔
ایک دوسرے موقع پر آپ نے فرمایا:
لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَدَعَ إِلَّا مُسْلِمًا(صحیح مسلم ،رقم۳۳۱۹)
میں ان یہود اور نصاری کو ضرور بہ ضرور عرب کے جزیرے سے نکال دوں گا،یہاں تک کہ اس جگہ مسلمانوں کے سوا کسی کو نہیں رہنے دوں گا۔
ان ارشادات سے صاف واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی بعد کے لوگوں کو پوری صراحت سے یہ تلقین فرمائی کہ اس جزیزہ نما عرب میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے ہیں۔آپ کا ارشاد ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ آخِرُ مَا عَهِدَ رَسُولُ اللَّهِ أَنْ قَالَ: ” لَا يُتْرَكُ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ دِينَانِ "(مسند احمد،رقم۲۵۷۵۸)
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عہد جو لیا وہ یہ تھا کہ عرب کے جزیزے میں دو دین باقی نہیں رہیں گے۔
قرآن مجید اور احادیث کی ان واضح تصریحات کے بعد یہ بات تو بالکل طے ہے کہ یہ حکم اس پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ہے جو آج ان ممالک پر مشتمل ہے :
1-المملكة العربية السعود
2-سلطنة عُمان
3-الإمارات العربية المتحدة
4-دولة الكويت
5-دولة قطر
6-مملكة البحرین
یمن ان میں شامل نہیں ہے ، اس لیے کہ یمن اگرچہ جعرافیہ کے لحاظ سے جزیزہ نما عرب کا حصہ ہے، لیکن اپنے سیاسی نظم کے اعتبار ہمیشہ جداگانہ حیثیت میں قائم رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ رسالت ماب نے جب قرب و جوار کی ریاستوں کو خطوط لکھے تو ان میں یمن کے سردار بھی شامل تھے، جنھوں نے سات ہجری میں پوری قوم سمیت ایمان قبول کر لیا تھا۔
یہی نقطہ نظر امت اسلامی کے بیشتر اہل علم علما نے اپنایا ہے،تاہم بعض اہل علم اس معاملے میں ایک مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ حکم پورے جزیرہ نما عرب کے لیے نہیں بلکہ صرف حجاز کے لیے خاص ہے۔
ان میں سے ایک شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں۔انھوں نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں جہاد کے باب میں مال غنیمت کی تقسیم کے ضمن میں دنیا میں ممالک کی تقسیم پر مختصر گفتگو کی ہے، جس سے ان کا یہ نقطہ نظر سامنے آتا ہے ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں:
وَأَن الْبِلَاد على قسمَيْنِ. قسم تجرد لأهل الْإِسْلَام كالحجاز، أَو غلب عَلَيْهِ الْمُسلمُونَ، وَقسم أَكثر أَهله الْكفَّار فغلب عَلَيْهِم الْمُسلمُونَ بعنوة أَو صلح.(جلد2،صفحہ 274)
” دنیا میں ممالک دو طرح کے ہیں:ایک وہ جنھیں اسلام کے لیے خاص کر لیا گیا ہے جیسے حجاز، یا وہ جن پر مسلمان غالب آگئے ہوں، اور دوسری قسم کے وہ ممالک ہیں جن میں کفار کی اکثریت ہو اور پھر مسلمانوں کا غلبہ قائم ہوگیا ہو، لڑ کر یا پھر صلح سے "
شاہ صاحب کی مذکورہ عبارت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ جس علاقے کو مسلمانوں کے لیے خاص قرار دے رہے ہیں وہ "حجاز” ہے۔ہم جانتے ہیں کہ حجاز جزیزہ نما عرب کا محض ایک حصہ ہے جو تاریخی طور پر نجد اور تہامہ کے مابین ایک فاصل ہے۔
شاہ صاحب اگر یہاں حجاز کو ہی اس حکم کے تحت بیان کرنا چاہتے تھے تو یہ یقینا امت میں رائج نقطہ نظر سے مختلف تھا جس کی تفصیل انھیں کرنی چاہیے تھی۔البتہ ایک امکان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جز بول کر کل مراد لینے کے اصول پر حجاز یہاں عرب ہی کے لیے ہی بولا جا رہا ہواور مراد جزیرہ نما عرب ہے۔اس امکان کو شاہ صاحب کی چند دوسری عبارات سے تقویت ملتی ہے جہاں حجاز محض اس ایک مخصوص علاقے کے لیے نہیں بلکہ وہاں کے دوسرے علاقوں کے لیے بھی بولا جا رہا ہے. حجت ہی میں ہے:
فَوَقع شيوع تدوين الحَدِيث والأثر فِي بلدان الْإِسْلَام، وَكِتَابَة الصُّحُف والنسخ حَتَّى قل من يكون أهل الرِّوَايَة إِلَّا كَانَ لَهُ تدوين أَو صحيفَة أَو نُسْخَة من حَاجتهم لموقع عَظِيم، فَطَافَ من أدْرك من عظمائهم ذَلِك الزَّمَان بِلَاد الْحجاز وَالشَّام وَالْعراق، ومصر واليمن وخراسان، وجمعوا الْكتب، وتتبعوا النّسخ (جلد 1،صفحہ 254)
(اسی اہتمام کی وجہ سے)حدیث کی تدوین کا عمل اطراف میں پھیل گیا اور بلاد اسلام میں جا بجا حدیث کی کتابیں اور نسخے مرتب ہونے لگے یہاں کہ اہل روایت میں کوئی ایسا عالم نہ تھا جس کی کوئی کتاب نہ ہو۔اس وقت کی ضرورت نے یہ صورت حال پیدا کر دی تھی۔اس زمانے کے بلند پایہ علما نے تمام ممالک مثلا حجاز، شام، عراق، مصر ،یمن اور خراسان کا سفر کیا، اور کتابوں اور نسخوں کو مختلف جگہوں سے جمع کر کے ان کی اشاعت کا اہتمام کیا۔
مذکورہ عبارت میں شاہ صاحب نے جزیرہ نما عرب کے علاقوں بلاد حجاز سے تعبیر کیا اور یمن سمیت باقی تمام علاقے جو اس سے باہر ہیں انھیں الگ سے ذکر کیا ہے۔اسی طرح دوسری جگہ پر اہل حجاز اور اہل عراق کی تعبیر اختیار کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک حجاز محض ایک مخصوص علاقہ نہیں ہے۔
أَقُول: اخْتَار أهل الْحجاز من الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ وَالْفُقَهَاء أَن السّنة للْمحرمِ أَلا ينْكح، وَاخْتَارَ أهل الْعرَاق أَنه يجوز لَهُ ذَلِك، (جلد 2،صفحہ 91)
چونکہ شاہ صاحب نے اپنے نقطہ نظر کی صراحت نہیں کی اس لیے یہ دونوں امکان مانے جاسکتے ہیں کہ ان کی مراد حجاز کہہ کر جزیرہ نما عرب بھی ہو سکتی ہے اور محض حجاز بھی۔
اس حکم کو سرزمین حجاز تک خاص کرنے کا نقطہ نظر جن دوسرے صاحب علم سے نقل ہوا ہے وہ امام شافعی ہیں۔امام صاحب کا یہ نقطہ نظر مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں اس مقام پر سامنے آتا ہے جہاں زیر بحث ہی غیر مسلموں کا حرم اور جزیزہ نما میں قیام ہے۔لکھتے ہیں:
قَالَ النَّوَوِيُّ: أَوْجَبَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنَ الْعُلَمَاءِ إِخْرَاجَ الْكَافِرِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَقَالُوا لَا يَجُوزُ تَمْكِينُهُمْ سُكْنَاهَا وَلَكِنَّ الشَّافِعِيَّ خَصَّ هَذَا الْحُكْمَ بِالْحِجَازِ وَهُوَ عِنْدَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَالْيَمَامَةِ وَأَعْمَالِهَا دُونَ الْيَمَنِ وَغَيْرِهِ (جلد 6،صفحہ 2631)
نووی کہتے ہیں، مالک، شافعی اور دیگر علما نے کفار کو عرب کے جزیرے سے نکالنے کو لازم سمجھا ہے اور ان کے وہاں رہنے اور سکونت اختیار کرنے کو بھی نا جائز سمجھا ہے لیکن امام شافعی نے اس حکم کو حجاز کے لیے خاص کیا ہے، اور حجاز مکہ، مدینہ، یمامہ اور اس کے ادر گرد یمن وغیرے کے سوا دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔
امام شافعی کا یہ نقطہ نظر ابن عبدالبر نے اپنی کتاب الاستذکار ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ الَّتِي أَخْرَجَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْهَا مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ وَالْيَمَامَةُ وَمَخَالِيفُهَا فَأَمَّا الْيَمَنُ فَلَيْسَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ .(جلد 8،صفحہ 247)
اور شافعی کہتے ہیں کہ عرب کے جزیرے جس سے عمر رضی اللہ عنہ نے یہود و نصاری کو نکالا تھا اس میں مکہ، مدینہ، یمامہ اور اس کی اطراف شامل ہیں جب کہ یمن جزیرہ عرب کا حصہ نہیں ہے۔
اس عبارت میں حجاز کا تو ذکر نہیں ہے جس سے یہ کہا جا سکا ہے کہ امام صاحب صرف جزیرہ نما کی تعین میں اختلاف رکھتے ہیں البتہ جزیزہ نما عرب کی تعین میں جن بعض علاقوں کو انھوں نے خاص کیا ہے، اور وہ علاقے یقینا حجاز ہی کا حصہ تھے۔امام شافعی کے اس نقطہ نظر کی بنیاد بعض اخبار احاد معلوم ہوتی ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب اس موضوع کی بعض روایات میں یہ حکم حجاز سے متعلق بھی نقل ہوا ہے۔یہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی روایات ہیں۔ ان میں سے چند نمایندہ روایات درج ذیل ہیں:
1-أَخْرِجُوا يَهُودَ الْحِجَازِ مِنَ الْحِجَازِ
(مسند حمیدی، رقم 83)
حجاز کے یہودیوں کو حجاز سے باہر نکال دو
2- أَخْرِجُوا يَهُودَ مِنَ الْحِجَازِ، وَأَهْلَ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ "
(سنن دارمی، رقم2418)
یہودیوں کو حجاز سے اور اہل نجران کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کرو۔
3-أَخْرِجُوا الْيَهُودَ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ وَأَهْلَ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ "
(مصنف ابن ابی شیبہ ،رقم 32295)
یہود کو سرزمین حجاز اور اہل نجران یعنی نصاری کو جزیرہ عرب سے باہر نکال دو۔۔
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے منسوب تمام روایات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ بالا بعض روایات میں رایویوں نے بات کو تھوڑا الٹ پلٹ دیا ورنہ اصل بات انھی ابو عبیدہ سے بیشتر طرق میں بالکل ٹھیک ٹھیک بیان ہوگئی ہے۔مثلا دیکھیےمسند احمد، رقم 1632 میں انھی سے روایت ہے:
"أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ، وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ "اہل حجاز کے یہودیوں اور اہل نجران (نصاری) کے جزیرہ نما عرب سے نکال باہر کرو۔
صاحب اعلاء السنن نے ان اس طرح کی روایات سے استدلال کر کے اس حکم کو اہل حجاز تک خاص کرنے پر بہت عمدہ علمی نقد کیا ہے۔انھوں بنیادی طور پر تین باتیں کہی ہیں:
پہلی یہ کہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ حجاز بول کر مجازا جزیرہ نما عرب مراد لیا جائے کیونکہ حجاز کے علاقوں میں زیادہ آبادی تھی لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جزیزہ نما عرب بول کر حجاز مراد لیا جا سکے۔
ان کی اس بات کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے ہم آج کہتے ہیں واشنگٹن سے حکم نامہ آیا ہے، تو یہاں واشنگٹن سے امریکہ مراد لیا جاتا ہے، لیکن اگر کہا جائے کہ امریکہ سے لوگوں کو نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے تو اب امریکہ سے صرف واشنگٹن مراد نہیں لیا جا سکتا۔
دوسری بات انھوں نے اٹھائی ہے کہ اگر حجاز ہی سے باہر نکالنے کا حکم ہے تو نجران تو پہلے ہی حجاز سے الگ ہے ۔اہل نجران کو الگ سے نکالنے کا حکم پھر کیوں دیا گیا۔انھیں تو حجاز سے نکالا ہی نہیں جا سکتا۔روایات میں صراحت سے اہل نجران کو جزیزہ نما عرب سے باہر نکال دینے کی تصریح ہے۔
تیسری بات وہ لکھتے ہیں اس موضوع کی تمام روایات پر غور کرنے سے واضح ہوتا کہ زیادہ تر طرق میں جزیزہ عرب کے الفاط نقل ہوئے ہیں، اسی کی روشنی میں حجاز والی روایات کو بھی دیکھنا چاہیے۔مزید تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہی وجہ تھی کہ وہ خیبر کے یہود ہوں یا نجران کے نصاری انھیں جب نکالا گیا تو جزیرہ نما کے کسی علاقے میں پناہ لینے کے بجائے انھیں شام و عراق جانا پڑا۔
(اعلاء السنن، جلد 12،صفحہ 559)
خلاصہ:
لہذا اس ساری بحث سے یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی توحیدکے مرکز کے طور پر جس علاقے کو خاص کیا وہ جزیزہ نما عرب کا پورا علاقہ ہے صرف حجاز نہیں ہے ۔اس علاقے کی سرحدوں کی تعین میں اہل علم کے مابین یقینا اختلاف ہو سکتا ہے،(الاستذکار میں یہ اختلافات دیکھے جا سکتے ہیں)لیکن اسے جزیزہ نما کے کسی ایک حصے، مثلا حجاز تک خاص کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل ٹھیک ٹھیک اسی بات کوبیان کررہا ہے:
” لا يجتمع دينان في جزيرة العرب "
جزیزہ نما عرب میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے.