پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنااللہ نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کی جانب سے وزارت سے مسستعفی ہونے کے اعلان پر ردعمل میں کہا ہے کہ 5 ووٹ کم ہونے سے وزیراعظم کا مینڈیٹ ختم ہوجاتا ہے۔
فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ان ہاؤس تبدیلی کی بات پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے اجلاس کے بعد کی تھی اور ان ہاؤس تبدیلی پر بات کرنا جمہوری عمل ہے’۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ‘پی ٹی آئی کی ووٹنگ کی صلاحیت اور اپوزیشن میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی تعداد برابر ہے، باقی جو ووٹ ہیں وہ کسی جگہ 7، کسی جگہ 9 کہیں 5 اور کسی جگہ پر 4 ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پی ٹی آئی کی مجموعی برتری 4 ووٹوں کی ہے، یعنی برتری کی شرح 172 ہے اور وزیراعظم عمران خان صاحب نے جب وزیراعظم کا انتخاب لڑا تھا تو ان کے ووٹ 176 تھے، مجموعی طور پر 5 ووٹ کم ہوں تو ان کا مینڈیٹ ختم ہوجاتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آج جو پیش رفت ہوئی ہے اس کو میں پیش رفت تو نہیں کہتا لیکن میں کہتا ہوں کہ اس سمت قدم ہوسکتا ہے، اس سمت واقعات اگلے تین سے 6 ماہ کے درمیان ہوں گے تو ان کا یہ آغاز ہوسکتا ہے اور اس سے زیادہ ان کے پاس وقت نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ان کو اس سے زیادہ وقت دیا گیا تو جس طرح انہوں نے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے اور عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کھانا مشکل بنادیا ہے، ہر کاروباری آدمی پریشان ہے اور انہوں نے تمام سبسڈی ختم کردی ہے’۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ ‘اس صورت حال میں ملک بھی پیچھے جارہا ہے اور عام آدمی بھی پریشان ہے، ان کے پاس سوائے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمے بنانے اور ان کو جیلوں میں ڈالنے کے علاوہ کوئی پالیسی نہں ہے’۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اس طرح ملک نہیں چل سکتا اس لیے یہ جتنی جلدی ملک و قوم کی جان چھوڑیں تو ملک وقوم کے لیے بہتر ہے’۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حکومت بنانے کی کوشش کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘مسلم لیگ (ن) نے اس طرح کی حکومت کے لیے کبھی سوچا بھی نہیں اور چاہتی بھی نہیں تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ متفقہ رائے سے حکومت بنے اور وہ سب سے پہلے انتخابی اصلاحات کرے جس کے آزاد اور شفاف انتخابات ہوں جس میں ووٹ کی عزت ہو’۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں کیسے کسی میں صلح کروائیں گے، وزیراعظم کا ایم کیو ایم کو منانے کی کوششیں بے سود ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اگر دوبارہ اتحادی بنے گی تو دوبارہ چلی جائے گی۔
خیال رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی وزارت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے کوئی وعدہ پورا پورے نہ کیا اور وزارت میں رہنا بے سود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ‘حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے’۔ ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ’16سے 17 مہینوں بعد بھی اگر کسی ایک نکتے پر پیش رفت نہ ہوئی کہ اطمینان ہوجائے مگر اس مرحلے پر ایک نقطہ آگیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘سندھ کے تیسرے بڑے شہر حیدر آباد کو ہم 70 سال سے ایک یونیورسٹی نہیں دے سکے، اس کے لیے پیش رفت ہوئی مگر صرف کاغذوں کی حد تک ہی ہوسکی’۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ‘میرے لیے ایسی صورت حال میں وزارت میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے رہیں، اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام انہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں جن کا وہ ہمارے حکومت میں آنے سے قبل سامنا کر رہے تھے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے وزارت قانون و انصاف مانگی تھی اور نہ ہی ہم نے جو نام دیے تھے ان میں فروغ نسیم کا نام شامل تھا تاہم ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت، قانون، انصاف اور احتساب کے عمل کے لیے انہیں فروغ نسیم کی ضرورت ہے’۔
کنوینر ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ ‘حکومت کے اتحادی ہیں اور اس کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے تاہم اس کا میرے وزارت میں نہ رہنے سے کوئی تعلق نہیں’۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کی موجودگی میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان بنی گالہ اور بہادر آباد میں معاہدے ہوئے تھے تاہم اس کے نکات میں سے ایک پر بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی نے 89 فیصد ٹیکس دیا ہے اور اسے اپنے پیسے مانگنے پڑ رہے ہیں’۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ‘جو شہر ہزاروں ارب دے چکا ہے اسے ایک ارب دینے کے لیے اتنی تکلیف ہوتی ہے’۔