بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے تصدیق کی ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف بیانات نہ دینے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے آرٹیکل 370 پر سودے بازی کی پیش کش کی گئی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور نریندر مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 پر تعاون کی پیش کش کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والی خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے دی ویک میں جاری ویڈیو بیان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ‘بھارتی حکومت کے نمائندوں سے نجی ملاقات کے لیے رابطہ کیا گیا اور ستمبر 2019 کے چوتھے ہفتے میں میرے پاس پتراجایا آئے اور انہوں نے کہا کہ وہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ سے ذاتی ملاقات اور براہ راست احکامات پر آیا ہوں’۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے اجتماعات اور بھارتی حکومت کے حوالے سے بیانات کے باعث ملائیشیا میں مقیم ہیں اور بھارت میں ان کے خلاف مقدمات قائم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘وہ میرے اور بھارتی حکومت کے درمیان پائی جانے والی تمام غلط فہمیوں اور غلط اطلاعات کو دور کرنا چاہتے ہیں اور وہ مجھ سے چاہتے ہیں کہ بھارت کو محفوظ راستہ دیا جائے’۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ‘میں نے سوچا کہ یہ وہی بی جے پی حکومت ہے جو گزشتہ ساڑھے تین سال سے مجھے تنگ کررہی ہے اور وہی آدمی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہیں جنہوں نے 2019 میں انتخابی تقریر کے دوران میرانام دو منٹ سے بھی کم وقت میں 9 دفعہ لیا’۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘اب وہ میرے ساتھ محفوظ راستے کے لیے سودے بازی کررے ہیں، اور کہا کہ وہ بھارت اور دیگر مسلم ممالک سے بہتر تعلقات کے لیے میرے تعلقات استعمال کرنا چاہتے ہیں’۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ‘میں نے کہا کہ مجھے قرآن اور صحیح حدیث کی تعلیمات کے خلاف کام کرنے کے لیے نہ کہیں اور دوسری بات میں ذاتی طور پر کوئی نفع نہیں لینا چاہتا اور آخری بات جہاں تک مسلم امہ کی بات ہے تو مجھے آپ سے تعاون کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے’۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘پھر انہوں نے کہا کہ وہ کشمیرمیں آرٹیکل 370 ختم کریں تو بی جے پی حکومت سے تعاون کریں تو میں نے اس بات کو رد کردیا اور کہا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنا غیرآئینی ہے اور کشمیریوں کے حقوق کے خلاف ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں کسی غیرمنصفانہ آرٹیکل کی حمایت نہیں کرسکتا اور نہ ہی کشمیر کے لوگوں سے غداری کرسکتا ہوں اور جب انہیں احساس ہوا کہ میں تعاون نہیں کروں گا تو انہوں نے کہا کہ بھارت کی کسی بھی ایجنسی جس میں این آئی، ای ڈی یا بھارتی پولیس کے خلاف بولنے پر انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن خاص کر بی جے پی حکومت اور نریندر مودی کے خلاف کچھ نہ بولیں’۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی اہمیت دلانے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا قانون بنایا گیا تھا اور بی جے پی کی بھارتی حکومت نے کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیونافذ کردیا تھا جو تاحال جاری ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ‘میرے لیے این آئی، ای ڈی سے مسئلہ نہیں ہے وہ اپنے سیاسی سربراہوں کی پیروی اور ان کے احکامات پر عمل کررہی ہیں، میں کسی حکومت کے خلاف بولنے کے لیے نہیں بیٹھا بلکہ داعی ہوں اور اسلام کا پیغام دیتا ہوں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب تک انسانیت اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو میں ان کے خلاف کیوں بات کروں’۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ ’17 دسمبر 2019 کو میں نے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف بیان دیا تھا جو میڈیا میں شائع ہوا’۔
بھارتی حکومت سے تعاون کے لیے مسلمان رہنماؤں پر دباؤ ڈالنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ‘جب میں نے بھارت کے کئی مسلم رہنماؤں کے بیانات دیکھے جب وہ آرٹیکل 370 ختم کرنے پر بی جے پی کی حمایت کرتے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ ایک مسلمان اور اسلام کی بنیادی معلومات رکھنے والا یہ کیسے کرسکتا ہے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ ان مسلم رہنماؤں کو بلیک میل کیا گیا ہوگا اور دباؤ ڈالا گیا ہوگا اور بی جے پی حکومت کے حق میں بیان دینے کے لیے مجبور کیا گیا ہوگا ورنہ سخت نتائج کا سامنا کریں’۔
آخر میں انہوں نے بھارت کے مسلمانوں کو پیغام دیتےہوئے کہا کہ ‘اگر آپ تصادم سے ڈرتے ہیں تو خاموش رہیں لیکن غیر منصفانہ قانون کی حمایت کرنا غیر اسلامی ہے’۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔
اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی منظوری دی گئی تھی۔
گزشتہ روز بھارتی وزارت داخلہ سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ ’10 جنوری 2020 سے مذکورہ ایکٹ کی دفعات نافذ العمل ہوں گی’۔
خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
متنازع شہریت قانون کے نفاذ پر حکومت کے خلاف سخت احتجاج کے باعث 9 جنوری کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا آسام کا دورہ منسوخ کرنا پڑگیا تھا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع شہریت قانون کی حمایت حاصل کرنے کے لیے گزشتہ دنوں ممبئی میں ایک اجلاس بھی منعقد کروایا تھا جس میں نامور فلمی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا، تاہم ایک بھی اداکار یا اداکارہ نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
4 جنوری کو بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کے منظور کردہ مسلمان مخالف شہریت قانون کے خلاف جنوبی شہر بنگلور میں تقریباً 30 ہزار، سلی گوری میں 20 ہزار سے زائد اور چنائی میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا جبکہ نئی دہلی، گوہاٹی اور دیگر شہروں میں بڑی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔
متنازع قانون کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں اب تک 25 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔